افواج پاکستان اور عوام ایک ہیں ، اس جذبے کو کوئی شکست نہیں دے سکتا ، آرمی چیف کا سال نو پر پیغام

0
400

میں چند ماہ میں ساٹھ سال کا ہو جاؤں گا، میں نے اپنی زندگی میں دیکھا کہ اس قوم نے اپنی افواج کو 75 سال تک پیار کیا، میں نے 1971 کی جنگ میں ایک سات سال کے بچے کے طور پر لاہور میں اپنے گھر کی چھت پر کھڑے ہو کر بھارتی جنگی جہازوں کو دریاۓ راوی کے پُل پر حملہ کرتے دیکھا، ایک جذبہ تھا لوگوں میں، محاز پر لڑنے والے فوجیوں کیلئے راشن، کپڑے، تحائف اکھٹے ہوتے تھے، شام کو بلیک آؤٹ کیلئے رضا کار گھر گھر جا کے بتیاں بند کرواتے تھے، شہری دفاع کا نظام تھا، نور جہاں کے ترانے سارا دن ریڈیو پر چلتے تھے، حتی کہ ہتھیار ڈالنے والے جنگی قیدیوں کی بھارت سے رہائ پر واہگہ بارڈر پر ان فوجیوں کو ہار ڈالے گئے، جنگی قیدیوں کیلئے سامان اور راشن اکھٹا کرکے بھارت بھیجا جاتا تھا، میں نے 1971 میں اپنے گھر کی دیوار پر “ہم ہزار سال تک جنگ لڑیں گے” سفید چونے سے لکھا جو کئی سال تک موجود رہا، اور پھر الفا براوو چارلی ڈرامے نے دھوم مچا دی، نوجوانوں میں فوج میں شامل ہونے کا جذبہ پیدا کیا میں شہادت کے جذبے سے 1983 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف ایس سی کے بعد انجینرنگ کی آپشن چھوڑ کر پاک بحریہ میں شامل ہوا، آبدوز پر مشکل ترین زندگی کیلئے والنٹیر کیا، بھارت کے پانیوں میں ٹوہ آپریشن کیے, کارگل جنگ کے دوران پاک بحریہ کے جہاز کو بھارت نے گرا دیا اور میں اُن شہیدوں کو ذاتی طور پر جانتا تھا اور اُس وقت کے چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل فصیح بخاری سے نیول فورم پر سب کے سامنے ایک ینگ لیفٹیننٹ کے طور پر یونیفارم میں سوال کیا کہ کیوں ہم بھارت کو سخت جواب نہیں دے رہے؟ اور اگر مار ہی کھانی ہے تو جاپان اور جرمنی کیطرح 50 سال کیلئے دفاع امریکہ کے حوالے کرکے دفاعی بجٹ عوام کی فلاح و بہبود پر لگائیں، میرا سوال سٹیج پر بیٹھی ٹاپ براس کیلئے غیر متوقع تھا لیکن اس سوال پر نا تو کسی نے سرزنش کی، نا میرے خلاف انکوائری ہوئ، وہ فوجی سربراہ اچھے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے، جو سوالوں سے خوفزدہ نہیں ہوتے تھے بلکہ سوالوں کا سامنا کرتے تھے، ہاں یہ اور بات ہے کہ میرا سوال آج بھی جواب ڈھونڈ رہا ہے میں نے اپنے جیب خرچ سے جنرل اختر عبدالرحمان کے بارے جہاد افغانستان پر کتاب خریدی اور پڑھی، یہ اور بات ہے کہ بعد میں پتہ چلا کہ جنرل اختر عبدالرحمان کے بچوں کے سوئزرلینڈ کے اکاؤنٹس میں ملینز آف ڈالر جہاد افغانستان کے پہنچے، یعنی جسے ہم شہید اور ہیرو سمجھ رہے تھے، وہ جہاد کے نام پر آنے والے ڈالر بیرون ملک اپنے اکاؤنٹس میں بھج رہا تھا اور اسکے بیٹے آج بھی اسی پیسے کی بدولت اربوں میں کھیل رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے 9 اپریل 2022 کے بعد سب کچھ بدل گیا، آئ ایس پی آر کا ٹوئٹر اکاؤنٹ جہاں عوام کی محبت بھری ہوتی ہے، وہاں نفرت بھر گئی، کوئ عوام کو یہ ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا کہ کس سے محبت کرنی ہے اور کس سے نفرت کرنی ہے؟ یہ فیصلہ عوام خود کرتی ہے، برسوں کی محبت شدید نفرت میں بدل چکی ہے، اسکے ذمہ دار صرف چند لوگ ہیں، میڈیا برسوں کی دلالی کے بعد اپنی ساکھ کھو چکا اور کل سچ کی تلاش بی بی سی ریڈیو پر ہوتی تھی اور اج سچ سوشل میڈیا پر زندہ ہوتا ہے عوام کے عشق کو نشانہ بنانے کے بعد کوئ کیسے توقع کر سکتے ہے کہ عوام اُس سے محبت کرے، عوام جسے اپنا ہیرو، اپنا لیڈر، اپنا مرشد مانتی ہے، اُسے جھوٹے مقدموں میں جیل میں ڈال رکھا ہے، عوام جنہیں چور اور ڈاکو مانتی ہے، انکی سہولت کاری ہو رہی ہے، انکے لیے آئین اور قانون کو روندا جا رہا ہے نفرت وہ لکیر ہے جو زلزلے کی فالٹ لائین سے زیادہ گہری اور مستقل ہوتی ہے، لاوا جب پک جاۓ، اُبل پڑتا ہے، اور راستے میں آنے والی ہر شے کو جلا کے راکھ بنا دیتا ہے