جیو نیوز کا دعویٰ اور حقیقت

0
400

جیو نیوز سال میں اربوں کی ویورشپ کا دعویٰ کرکے اپنی مقبولیت کا دعویٰ کر رہا ہے، آئیے جیو کی مقبولیت کا پوسٹ مارٹم کریں، میں نے جیو نیوز کے ٹوئٹر اکاؤنٹ اور یو ٹیوب اکاؤنٹ کے لائیو سکرین شاٹس لیے تو اندازہ ہو کہ 25 کروڑ آبادی کے ملک پاکستان کے سب سے بڑے نیوز چینل کے مقبول ترین پروگرام کو 1000 سے کم لوگ لائیو دیکھ رہے ہیں، اسکے مقبول ترین ٹاک شو کو 40 لوگوں نے پسند کیا، چار لوگوں نے ری ٹوئیٹ کیا، پانچ لوگوں نے کمنٹ کیے اور اسمیں یقینا جیو کے اپنے ملازمین بھی شامل ہوں گے اور کوئ چار ہزار کے لگ بھگ ویورشپ ہے پاکستان کا روایتی میڈیا اپنی ساکھ کھو چکا ہے، لوگ گلی میں کسی مراثی کا یقین کرلیں گے لیکن جیو یا کسی اور نیوز چینل کی خبر یا تجزیے کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے اب ایک نظر عادل راجہ یا شاہین صہبائ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر آ جائیں تو دونوں کی اوسط ویورشپ روازنہ دس لاکھ کے لگ بھگ ہے، ایک ماہ میں تین کروڑ اور سال کی ویورشپ صرف ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر 40 کروڑ کے لگ بھگ ہے، اسمیں یو ٹیوب اور وٹس ایپ کو شامل کریں تو دونوں کی ویورشپ اربوں میں چلی جاتی ہے یعنی ایک طرف ہزاروں ملازمین، اربوں کا بجٹ، حکومت کی سرپرستی، اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ، جدید ترین ٹیکنالوجی، میڈیا کا دہائیوں کا تجربہ اور دوسری طرف ایک بوڑھا شخص موبائیل فون پر اور ایک ریٹائرڈ میجر ایک لیپ ٹاپ اور ایک موبائیل فون سے گھر کے کمروں سے اپنی راۓ دے رہے ہیں، اور یہ دو اشخاص پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا چینل سے زیادہ دیکھے جاتے ہیں، زیادہ سنے جاتے ہیں، زیادہ پڑھے جاتے ہیں، زیادہ اعتبار کیے جاتے ہیں عمران خان ایک پولیٹیکل جینیس ہے، جسنے عوام کی نبض کو آج سے 15 سال پہلے سوشل میڈیا پر شفٹ ہوتے پہچان لیا اور آج اسکی مقبولیت اسی سوشل میڈیا پر پروان چڑھی، اس کے مقابلے میں جغادری صحافی، روایتی سیاستدان، اسٹیبلشمنٹ اس تبدیلی کو یا تو دیکھ نا سکے یا انکی کمیسٹری سوشل میڈیا سے میچ نہیں کرتی، کیونکہ سوشل میڈیا پر سیاسی اور صحافتی دو نمبری پروان نہیں چڑھ سکتی آج سیاسی مقبولیت کی آکسیجن سوشل میڈیا ہے اور اس آکسیجن کا مالک عمران خان ہے، کاربن ڈائ آکسائیڈ پر پلنے والے دو نمبر آکسیجن سے خوفزدہ ہیں اور آکسیجن پر پابندی لگانا چاہتے ہیں ورنہ انکا خاتمہ یقینی ہے آج پاکستان کے سب سے بڑے صحافی ایک صدیق جان کے مقابلے میں بونے نظر آتے ہیں آج طاقت کے پہاڑ اسی سوشل میڈیا کے ہاتھوں تھر تھر کانپ رہے ہیں، سوشل میڈیا کا اصل نام عوامی میڈیا ہونا چاہیے کیونکہ یہ عوام کی آواز اور عوام کی نبض ہے