Enemies of our health worst than a suicide attacker.

0
1168

By Ahmad Jawad


Writer is Chief Visionary Officer of World’s First Smart Thinking Tank ” Beyond The Horizon” and most diverse professional of Pakistan. See writer’s profile at http://beyondthehorizon.com.pk/about/. can be contacted at “pakistan.bth@gmail.com”


Urdu article by an unknown writer is eye Opener. Hats off to the writer. Please do read full article.

The article unfolds our most  deadly enemy who is destroying us everywhere, anywhere and anytime. There was never and there would never be any Rad Ul Fasad or Zarb Azab against such an enemy because battles are not fought for public by Pakistani democratic institutions, neither it is battle of Judiciary nor it is battle of bureaucracy. Our institutions are only there to cover up the real culprit and show up to mark their ceremonial presence. We are dying slowly with the poison we get everyday in our food and later with medical treatment we get through medicines. This enemy is home grown, blast free, noiseless and without any foreign conspiracy or funding. We don’t even consider such an enemy as enemy. We are contend as long as we survive. We are helpless because helplessness is our culture. We all are facilitator to this enemy.


Writer : UnKnown 

پانامہ میں 2006ءمیں دوسو کے قریب لوگوں نے کھانسی کی ایک دواءاستعمال کی اور ان میں سے 40 لوگ ہلاک ہو گئے‘
حکومت نے تحقیقات کیں‘ پتہ چلا یہ دواءچین سے درآمد ہوئی تھی اور یہ مضر صحت تھی‘ حکومت نے چین کے سفیر کو طلب کر لیا‘
سفیر نے اپنی حکومت کو ای میل کر دی‘ چینی حکومت نے تفتیش شروع کی‘ ایک ہفتے میں صورتحال کھل کر سامنے آ گئی‘ معلوم ہوا چین کی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی میں ژینگ ژیانو نام کا ایک ڈائریکٹر تھا‘ یہ شخص کرپٹ تھا‘
اس نے 8 ادویات ساز کمپنیوں سے ساڑھے آٹھ لاکھ ڈالر رشوت لی اور دو درجن ادویات کی منظوری دے دی‘ یہ دواءبھی ان ادویات میں شامل تھی‘ژینگ ژیانو اس وقت تک ریٹائر ہو چکا تھا‘پولیس نے چھاپہ مارا اور اسے گرفتار کر لیا‘
مزید تحقیقات ہوئیں تو مزید انکشاف ہوا کاﺅ زین زونگ نام کا ایک اور ڈائریکٹر بھی اس مکروہ دھندے میں شامل تھا‘ وہ بھی غیر معیاری ادویات کی منظوری دیتا رہا‘
حکومت نے اسے بھی گرفتار کر لیا‘ یہ ملزمان دو ہفتوں میں مجرم ثابت ہو گئے‘ حکومت نے کیس عدالت میں پیش کر دیا‘ عدالت نے مئی 2007ء میں ژینگ اور جولائی 2007ء میں کاﺅ کو سزائے موت دے دی‘ ژینگ نے سزا کے خلاف اپیل دائر کر دی‘
ژینگ کا کہنا تھا ”میں اپنا جرم تسلیم کرتا ہوں لیکن میری وجہ سے کوئی چینی شہری ہلاک نہیں ہوا‘ میرے خلاف کوئی چینی مدعی بھی موجود نہیں لہٰذا میرے جرم کے مقابلے میں میری سزا زیادہ ہے‘ میرے ساتھ رعایت کی جائے“
عدالت نے دو ہفتے میں اس کی اپیل نبٹا دی‘ جج نے اپنے فیصلے میں لکھا ”یہ شخص نہ صرف انسانی جانوں کا قاتل ہے بلکہ اس کی وجہ سے پوری دنیا میں چین کی بدنامی بھی ہوئی چنانچہ یہ درندہ صفت انسان رعایت کے قابل نہیں“
حکومت نے اپیل مسترد ہونے کے بعد ژینگ کو 10 جولائی 2007ءکو گولی مار کر ہلاک کر دیا جبکہ دوسرے ملزم کاﺅ کو بھی چند ہفتے بعد دوسری دنیا بھجوا دیا گیا‘
یہ کیس جتنا عرصہ چلتا رہا چینی میڈیا روز پانامہ‘ ادویات اور فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی کے سابق ڈائریکٹرز کی خبریں شائع کرتا رہا یوں پانامہ چین میں خاصا مقبول ہو گیا‘

آپ اس کیس کا کمال دیکھئے‘ یہ دونوں حضرات اگر پانامہ کے شہری ہوتے تو انہیں وہاں سزائے موت نہ ہوتی‘ یہ زیادہ سے زیادہ دس برس کےلئے جیل بھجوا دیئے جاتے یا پھر ان کی جائیداد ضبط کر لی جاتی لیکن چین نے دس ہزار کلو میٹر دور ایک دوسرے ملک میں ادویات کے استعمال سے مرنے والے لوگوں کے بدلے اپنے دو ریٹائر افسروں کو سزائے موت دے دی‘ کیوں؟

کیونکہ چین سمجھتا تھا یہ لوگ ملک کی بدنامی کا باعث بنے ہیں۔

آپ اب پاکستان کی مثال لیجئے۔
لاہور ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے‘ میو ہاسپٹل اس شہر کا قدیم ترین ہسپتال ہے‘ 13 جنوری کو انکشاف ہوا میو ہسپتال میں دل کے مریضوں کو جعلی سٹنٹ ڈالے جاتے ہیں‘
یہ انکشاف ایف آئی اے کی ایک ٹیم نے کیا‘ ایف آئی اے کا ایک صحت مند اسسٹنٹ ڈائریکٹر مریض بن کر ہسپتال گیا‘ امراض قلب کے شعبے نے معائنہ کیا اور اسے دل کا مریض ڈکلیئر کر دیا۔ ”مریض“ کو سٹنٹ ڈلوانے کا مشورہ دیا گیا‘
اسسٹنٹ ڈائریکٹر میو ہاسپٹل سے پرائیویٹ کلینک گیا‘ کلینک کی مشینوں نے اسے مکمل صحت مند قرار دے دیا‘
ایف آئی اے نے تحقیقات شروع کر دیں‘ پتہ چلا ہسپتال میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کا ایک گینگ کام کررہا ہے‘ گینگ میں پروفیسر بھی شامل ہیں‘ یہ لوگ مریضوں کو جعلی سٹنٹ لگاتے ہیں‘ ہسپتال کو ایک کمپنی جعلی اور غیر معیاری سٹنٹ فراہم کرتی ہے‘ یہ سٹنٹ چھ ہزار روپے مالیت کے ہوتے ہیں لیکن مریض سے دو لاکھ روپے وصول کئے جاتے ہیں‘
پروفیسروں نے سٹنٹ فراہم کرنے والی کمپنی کو ہسپتال میں باقاعدہ کمرہ دے رکھا ہے‘ ایف آئی اے نے اس کمرے پر چھاپہ مارا اور چار کروڑ روپے مالیت کے سٹنٹ برآمد کر لئے‘ ان سٹنٹس پر کسی کمپنی کا نام چھپا تھا اور نہ ہی ایکسپائری ڈیٹ درج تھی‘ یہ دھندہ برسوں سے جاری تھا ‘
یہ لوگ ہزاروں مریضوں کو جعلی اور غیر معیاری سٹنٹ لگا چکے تھے‘ ایف آئی اے کو معلوم ہوا یہ جعل ساز صحت مند لوگوں کو بھی مریض ڈکلیئر کر کے انہیں سٹنٹ لگا دیتے ہیں اور وہ بے چارہ صحت مند شخص پوری زندگی دل کی ادویات استعمال کرتا رہتا ہے‘
پتہ چلا یہ سلسلہ صرف ایک ہسپتال تک محدود نہیں بلکہ ملک میں ایسے درجنوں ہسپتال موجود ہیں جہاں برسوں سے یہ دھندہ جاری ہے‘ یہ ایک مثال تھی‘ آپ اگر تھوڑی سی گہرائی میں جا کر دیکھیں تو آپ کو پاکستان کے اکثر ہسپتال سلاٹر ہاﺅس اور ڈاکٹر قصائی نظر آئیں گے‘

آپ کسی دن دوبئی چلے جائیں‘ آپ وہاں اپنا میڈیکل ٹیسٹ کرائیں اور اس کے بعد پاکستانی ہسپتالوں اور لیبارٹریوں میں چلے جائیں‘

آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے آپ کو دل کا ڈاکٹر دل‘ آنکھ کا ڈاکٹر آنکھ‘ گردے کا ڈاکٹر گردے‘ جگر کا ڈاکٹر جگر اور دماغ کا ڈاکٹر دماغی مریض قرار دے دے گا‘ یہ لوگ آپ کو لاکھ دو لاکھ روپے کا نسخہ بھی لکھ دیں گے‘ آپ کسی دن پاکستانی لیبارٹریز کی رپورٹس کا تجزیہ بھی کر لیں‘ آپ اگر مریض ہیں تو یہ لیبارٹریاں آپ کو صحت مند اور آپ اگر صحت مند ہیں تو یہ آپ کو مریض قرار دے دیں گی‘
آپ کو یہ فرق ادویات کے معیار میں بھی ملے
گا‘ میں انسولین استعمال کرتا ہوں‘ میں دس سال سے فرانس سے انسو لین لا رہا ہوں‘ میں نے تین ماہ قبل پاکستانی انسولین شروع کی‘
آپ یقین کیجئے میری شوگر آﺅٹ آف کنٹرول ہو گئی‘
میں نے دوبارہ فرانس سے انسولین منگوائی‘ استعمال کی اور میری شوگر کنٹرول میں آ گئی‘ فرانس اور پاکستان دونوں میں انسولین ایک ہی کمپنی فراہم کرتی ہے لیکن معیار میں زمین آسمان کا فرق ہے‘

آپ کو یہ فرق ڈسپرین میں بھی ملے گا‘ آپ امپورٹڈ ڈسپرین استعمال کریں اور اس کے بعد پاکستانی ڈسپرین کھائیں آپ کو فرق جاننے میں چند منٹ لگیں گے‘
آپ کو یہ فرق خوراک میں بھی ملے گا‘ پاکستان میں بچوں کو اب ماں کا دودھ بھی خالص نہیں ملتا‘ صابن بنانے والی فیکٹریاں یورپ سے استعمال شدہ گھی اور کوکنگ آئل منگواتی ہیں‘ یہ آئل استعمال کے قابل نہیں ہوتا لیکن یہ لوگ یہ آئل پکوڑے سموسے تلنے‘ بسکٹ کیک بنانے اور مٹھائیاں تیار کرنے والوں کو فروخت کر دیتے ہیں
اور یہ لوگ یہ آئل ہمارے معدوں میں انڈیل دیتے ہیں‘ دودھ میں کیا کیا ملاوٹ ہوتی ہے اور چائے کی پتی اور پانی میں کیا کیا ہو رہا ہے‘ یہ اب ڈھکی چھپی بات نہیں رہی‘

ہم کتنے بدنصیب لوگ ہیں‘ ہم خوراک کے درندوں سے بچ جاتے ہیں تو ہم ڈاکٹروں کے قابو آ جاتے ہیں اور یہ ظالم چھ ہزار روپے کا سٹنٹ دو لاکھ روپے میں ہماری نسوں میں ٹھونک دیتے ہیں لیکن حکومت نوٹس لینے کے علاوہ کچھ نہیں کرتی‘
ان کی دوڑ ”ہم مجرموں کو قرار واقعی سزا دیں گے“ تک محدود رہتی ہے۔میری حکومت سے درخواست ہے آپ خوراک اور ادویات کے معاملے پر خوفناک اتھارٹی بنا دیں‘ آپ اتھارٹی کو وسیع اختیارات دیں‘
کڑی سزائیں طے کریں اور ملک میں جو بھی شخص خوراک اور ادویات میں ملاوٹ کا مرتکب پایا جائے‘ یہ مریض کو جعلی سٹنٹ لگائے یا یہ غلط رپورٹ جاری کرے اسے عبرت ناک سزا دی جائے‘ اسے خوفناک مثال بنا دیا جائے۔

آپ یقین کیجئے چین نے اب تک ژینگ ژیانو اور کاﺅ زین زونگ جیسے صرف دس لوگوں کو سزائے موت دی‘ چین میں اس کے بعد کسی نے دواءاور خوراک میں ملاوٹ کی جرا¿ت نہیں کی‘ چین میں 2007ءکے بعد اب تک کسی اہلکار نے غلط دواءبھی رجسٹر نہیں کی‘ ہم بھی اگر اپنے لوگوں کو صحت مند دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی کبھی نہ کبھی یہ کرنا ہوگا
ورنہ دوسری صورت میں لوگ خوراک سے مرتے رہیں گے یا پھر ڈاکٹروں کے ہاتھوں ذبح ہوتے رہیں گے۔