Life from top of the world – A first hand experience. A glimpse into the tough journey of Col Abdul Jabbar Bhatti to Mount Everest.

0
1988

Article Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-40161421?ocid=wsurdu.chat-apps.in-app-msg.whatsapp.trial.link1_.auin

‘ایورسٹ ڈائری:’جہاں آکسیجن سلینڈر ہی زندگی کی ضمانت ہوں

پاکستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان کوہ پیما سعد محمد دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کی مہم پر روانہ ہوئے تھے تاہم انھیں نامراد لوٹنا پڑا۔ سعد اس سفر کے دوران بی بی سی اردو کے لیے تصویری و تحریری ڈائری کی شکل میں اپنے تجربات شیئر کرتے رہے۔ اس سلسلے میں ایورسٹ ڈائری کی آخری قسط پیش خدمت ہے۔

بیس کیمپ سے کیمپ ون کی طرف روانہ ہوں تو نکلتے ہی کھمبو گلیشیئر سے پالا پڑتا ہے۔ یہ ایک عجیب دنیا ہے جہاں برف کا ایک وسیع دریا شدید ڈھلوانی علاقے کی وجہ سے ٹیلوں اور دراڑوں کی شکل میں کرچی کرچی ہوگیا ہے۔

مخصوص شرپا جنھیں آئس ڈاکٹر کہا جاتا ہے ان برفانی بھول بھلیوں میں ہر سال راستہ تراشتے ہیں۔ اگرچہ راستے پر متواتر رسی بندھی ہوئی ہوتی ہے لیکن پھر بھی یہ حد سے زیادہ دشوار گزار ہے اور ہر وقت برفانی تودے گرنے کا ڈر رہتا ہے۔

کھمبو کریوس

کھمبو گلیشیئر کا ایک اور خاصہ اس کے پرخطر کریوس یا دراڑیں ہیں۔

جہاں یہ دراڑیں بہت چوڑی نہ ہوں وہاں المونیم کی سیڑھی کی مدد سے یہ شگاف عبور کر لیے جاتے ہیں۔

سیڑھی کو رسی کی مدد سے برف میں مضبوطی سے گاڑ دیا جاتا ہے مگر اس پر چلنے کے لیے دل گردہ درکار ہے کیونکہ ذرا سی بھی غلطی کے نتیجے میں آپ زندگی سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔

سعد محمد

کیمپ ون سے آگے برف کا ایک وسیع میدان ہے جس کو پار کرتے کرتے آپ نڈھال ہو جاتے ہیں۔

اگر دوپہر کو تپتی دھوپ میں یہ سفر کیا جائے تو پیاس سے برا حال ہو جاتا ہے۔

البتہ یہاں صبح کے وقت موسم خاصا خوشگوار ہوتا ہے۔

ایورسٹ ڈائری

کیمپ ٹو سے آگے پہاڑ ایک دیوار کی مانند راستہ روکے کھڑا ہے۔

یہ مقام 6400 میٹر کی بلندی پر ہے۔ یہاں سے کیمپ تھری واضح طور پر نظر تو آتا ہے لیکن وہ ہرگز قریب نہیں ہے۔

کیمپ ٹو پر زمین پھر کچھ ہموار ہے اور خیمے سے باہر نکل کر گھوما پھرا جا سکتا ہے لیکن کیمپ تھری میں ایسی کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔

آکسیجن سلینڈر

کیمپ فور اور اس سے آگے آکسیجن کے سلینڈر ہی زندگی کی ضمانت ہیں۔

شرپا انھیں کیمپ فور تک پہنچاتے ہیں اور اب چوٹی سر کرنے کے لیے آخری ہلہ بولا جاتا ہے تب انھیں استعمال کیا جاتا ہے۔

میرے ساتھی پاکستانی کوہ پیما لیفٹیننٹ کرنل (ر) عبدالجبار بھٹی کے شرپا نے نہ جانے کیوں تین کی جگہ دو سلینڈر اٹھائے جس کے نتیجے میں ان لوگوں کے ساتھ چوٹی کے نزدیک حادثہ پیش آیا جس کی وجہ سے دونوں کے ہاتھوں پر شدید فراسٹ بائٹ ہو گئی۔

ایورسٹ ڈائری

جب عبدالجبار بھٹی کیمپ فور پہنچے تو اس وقت میں کیمپ تھری میں تھا۔ وہ تو وہاں سے چوٹی سر کرنے کے لیے روانہ ہوئے مگر مجھے چند وجوہات کی بنا پر نیچے کیمپ ٹو میں آنا پڑا۔

جب ان کے لاپتہ ہونے کی خبر آئی تو میں دوبارہ کیمپ تھری میں جانے کے لیے پر تول رہا تھا۔

اس وقت مجھے بیس کیمپ سے پیغام آیا اور تاشی نامی شرپا نے بھی جو خود ایک منجھا ہوا کوہ پیما ہے مجھے سمجھا بجھا کر مزید نیچے جانے کے لیے قائل کر لیا۔

 

اگلی صبح پہلے بھٹی صاحب اور پھر ان کے شرپا کو بھی ہیلی کاپٹر کی مدد سے بیس کیمپ منتقل کر دیا گیا۔ ریسکیو ہیلی کاپٹر نے بھٹی صاحب کو کیمپ تھری سے ‘لانگ لائن’ کے ذریعے اٹھایا اور سیدھا بیس کیمپ میں اتار دیا۔

بھٹی صاحب نے اس سے پچھلی رات 8600 میٹر کی بلندی پر نہ صرف سو کر گزاری بلکہ وہ صبح اپنے پیروں پر چل کر کیمپ فور تک آئے تھے۔

وہ شاید تاریخ میں پہلے انسان ہیں جو اتنی بلندی پر بغیر آکسیجن سونے کے بعد بھی زندہ رہا کیونکہ آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلندی پر اگر آپ بغیر آکسیجن کے نیند کی آغوش میں چلے گئے تو یہ یقینی طور پر موت کے منہ میں جانے کے برابر ہے۔

سعد محمد اور عبدالجبار بھٹی

ویسے تو جتنی سیر میں نے ہیلی کاپٹر میں کر لی اس کے بعد ایسا لگتا ہے کہ پیسے پورے ہوگئے لیکن منزل کے اتنے قریب آ کر نامراد واپس لوٹ جانے پر مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا۔

دل اس خیال سے بہل جاتا ہے کہ اس میں ضرور کوئی بہتری ہوگی۔ امید یہی ہے کہ میں جلد واپس نیپال جاؤں گا اور اپنا یہ ادھورا خواب پورا کروں گا۔