کرپشن کی تاریخ – گلی کے نکڑ سے

0
509

بچپن میں ہماری گلی کے نکڑ پر ایک کسٹم انسپکٹر نے گھر لے لیا اور لیکن اسکے گھر میں خوشحالی، کھلا پیسہ دیکھکر کوئ متاثر نہیں ہوا بلکہ پورا محلہ انھیں رشوت خور کہتا اور حرام کمائ پر تھو تھو کرتا تھا، سب اس گھر کو نفرت سے دیکھتے اور ملنے سے پرہیز کرتے، لیکن وقت بدلا، کرپٹ ترین لوگوں کو اقتدار میں لایا گیا، اور اسکے بعد رشوت خوری، حرام کی کمائ لعنت نا رہی بلکہ عزت دار ہو گئی تمام کرپٹ عزت دار بن گئے، حرام کمائ معاشرے کی عادت اور ضرورت بن گئی اور آج تمام رہائشی علاقوں میں سب کی گلی کے نکڑ پر ایک رشوت خور، حرام کی کمائی والا آ گیا ہے، جو محلے میں اپنے مال اور اپنی طاقت کے بل بوتے پر عزت دار بن چکے ہیں، انکے حرام کے مال کا جو بھی پول کھولتا ہے، اُس پر ایف آئ آر کٹ جاتی ہے، احمدنورانی کا یہی قصور تھا، یعنی حرام خوروں کو اس معاشرے میں ریاست تحفظ دیتی ہے، اعلیٰ عہدے دیتی ہے، اقتدار اور اختیار کے مواقع دیتی ہے، ایوب نے اشرافیہ کی بنیاد رکھی، ضیا نے اشرافیہ کو اقتدار اور سرپرستی دی، مشرف نے اشرافیہ کیساتھ عورت کا تڑکہ لگا کے کرپشن کو مہلک ترین روپ دیکر پورے معاشرے میں پھیلا دیا، اسکے بعد کرپشن اشرافیہ کا حق بن گئی اور اشرافیہ اپنے اختلافات کے باوجود بھی ایکدوسرے کی کرپشن کو ایک باہمی انڈرسٹینڈنگ سے تحفظ دیتی ہے، ہر ریٹائرڈ کرپٹ عہدے دار کو اسلئے تحفظ دیا جاتا ہے کہ کل اسکی ضرورت حاضر سروس کو بھی ہوگی، اب اس حمام میں 90 فیصد سرکاری اہلکار ننگے بھی ہیں اور کانے بھی ہیں، ننگوں اور کانوں کے دیس میں کپڑے والوں کا جینا مشکل ہو جاتا ہے عمران خان ننگوں اور کانوں کے معاشرے میں ایک معجزہ ہے جو اپنا فرض ادا کر چکا، نظریے کی فصل تیار کر دی، اب نئی نسل نے یہ فصل کاٹنی ہے لیکن اسکے لیے محنت، صبر، مستقل مزاجی اور کردار چاہیے، اگر ہم بھارت، بنگلہ دیش، ملائشیا، سنگا پور، انڈونیشیا اور ترکیہ کیطرح ترقی کرنا چاہتے ہیں؟ یاد رہے کہ فصل عمرانیہ کو آگ لگانے والے تیار بیٹھے ہی