Something to ponder seriously, ALLAH SWT keep PAKISTAN SAFE

0
1805

CPEC… ۔ ایک قابل فکر

Source: Social Media

دنیا کی سب سے فعال آبی گزرگاہ “نہر سویز” ہر سال 5.5- ارب ڈالر کمانے کے باوجود اگر مصر جیسے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں کرسکی اور وہ آج اپنی حیثیت کی بحالی کے لیے “عالمی قرضوں” کی راہ دیکھ رہا ہوتا ہے۔

 تو کیا چین کی مدد سے بننے والی اقتصادی راہداری پاکستان کی تقدیر بدل دے گی

 تقریباً200- کلو میٹر طویل اس نہر کی کھدائی 25 ستمبر 1859ء میں شروع ہوئی دس سال بعد 17 نومبر 1869ء کو اس کا افتتاح ہوگیا۔

یہ نہر بحراوقیانوس سے متصل بحر قلزم کو اور بحر ہند سے متصل بحرالکاہل کو ملاتی ہے۔
 یوں امریکا اور یورپ کے جہاز 7000 کلو میٹر کے سفر کی بچت کرتے ہوئے اپنی تجارت کو فروغ دیتے ہیں۔

 فرانس کے سفیر فرڈنینڈ ڈی لیس پس  نے خلافت عثمانیہ کے والیٔ مصر محمد سعید پاشا سے ایک کمپنی بنانے کی اجازت طلب کی جو نہر سویز کی کھدائی کرے گی اور پھر ننانوے سال تک وہ اسے استعمال کرے گی۔

برطانیہ اس زمانے میں سب سے بڑی بحری قوت تھا لیکن اس نے اس نہر کی کھدائی کی مخالفت کی۔

 برطانوی میڈیا روز خبریں اور مضامین شایع کرتا کہ 30000- غلاموں سے اس نہر کی کھدائی کروائی جارہی ہے جو انسانیت کے لیے بہت بڑا سوال ہے۔

 فرڈنینڈ نے برطانیہ کو ایک طویل خط لکھا اور کہا کہ اس وقت آپ کا ضمیر کہاں مرگیا تھا جب اسی طرح کے غلاموں سے مصر میں برطانوی کمپنی ریلوے لائن بچھا رہی تھی اور سرنگیں کھودتے سیکڑوں مزدور ہلاک ہوگئے تھے۔

فرانس اس زمانے میں امریکا کا اتحادی تھا اور اس نے امریکا کو برطانیہ کی غلامی سے آزادی دلانے میں مدد کی تھی۔ اسی لیے نہر سویز نے امریکی تجارت کو چار چاند لگادیے۔
 امریکا نے اس نہر کے مکمل ہونے سے چھ ماہ قبل پورے امریکا میں سانس فرانسسکو سے لے کر نیویارک تک ریلوے لائن بچھا دی تھی۔ یوں امریکی مال کا راستہ پوری دنیا کے لیے آسان ہوگیا۔ اس نہر کا سب سے بدترین نتیجہ براعظم افریقہ کی غلامی تھی۔ اس کے مختلف حصوں پر یورپی ممالک قابض ہو گئے اور یہ اس قدر بدترین حکمران تھے کہ جب وہ یہاں کی معدنیاتی دولت لوٹ کر واپس گئے تو افریقہ کو غربت، افلاس، بیماری اور قحط تحفے میں دے گئے۔نہر سویز بن گئی، جہازوں کی آمدورفت شروع ہوئے عرصہ ہوگیا۔

عالمی تجارت کو پر لگ گئے لیکن مصر کی غربت ختم ہوئی اور نہ ہی قرضہ
سعید پاشا کے جانشین اسماعیل پاشا نے قرضہ اتارنے کے لیے سویز نہر میں حکومت کے 40- پونڈ کے حصص کو برطانوی حکومت کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ یہ رقم ایک یہودی سرمایہ کار خاندان روتھ شیلڈز نے ادا کی۔

تجارت چونکہ “عالمی بنیکاروں” کے سرمائے سے چلتی ہے اس لیے برطانیہ، جرمنی، ہنگری، ہالینڈ، اسپین، روس اور آسٹریا نے 29 اکتوبر 1888ء میں خلافت عثمانیہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا‘ جسے استنبول معاہدہ کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت نہر سویز ایک عالمی گزرگاہ قرار پاگئی جس کی ملکیت پوری دنیا کی ہو گئی اور طے پایا کہ اس میں جنگ اور امن دونوں صورتوں میں جہاز گزرتے رہیں گے۔

 یہ مصر کی سرزمین سے گزرتی تھی لیکن اس کو چلانے اور اس کی دیکھ بھال کی ذمے داری “برطانیہ ” کو سونپ دی گئی۔

مصر پر جمال عبدالناصر کی حکومت آئی تو اس کا جھکاؤ سوویت یونین کی جانب ہوگیا۔

مصر دریائے نیل پر “اسوان بند” بنانا چاہتا تھا۔ امریکا اور برطانیہ نے امداد روک دی۔ جمال عبدالناصر نے سویز نہر کو قومی ملکیت میں لے لیا۔

 عالمی طاقتوں کی آشیرباد سے اسرائیل نے 1967ء میں عرب ممالک پر حملہ کردیا۔ یروشلم کا مقدس شہر اور نہر سویز اس کے قبضے میں چلے گئے۔ پورا علاقہ جنگ کے خوف میں ڈوب گیا۔

جنگ کے دوران 15 جہاز سویز نہر میں پھنس گئے تھے۔ وہ 8- سال تک وہاں پھنسے رہے اور انوار سادات کی اسرائیل سے جنگ، فتح، امریکا کی طرف جھکاؤ، کیمپ ڈیوڈ معاہدہ اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد 1975ء میں یہ دوبارہ کھول دی گئی۔
 آج اسے کھولے ہوئے 51- سال ہوچکے۔

ہر روز 50- جہاز یہاں سے گزرتے ہیں۔ پوری دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اس سے اپنی تجارتی سلطنت میں اضافہ کرتے ہیں۔

5.5- ارب ڈالر سالانہ کمانے والی یہ نہر سویز …مصر کی پسماندگی دور نہ کرسکی۔

حالت یہ ہے کہ اب مصر اس نہر کو “دو رویہ ” کرنے کے منصوبے پر کام شروع کرنے والا ہے جس پر 8- ارب ڈالر لاگت آئے گی اور وہ یہ رقم عالمی قوتوں کو بانڈ بیچ کر حاصل کرے گا اور اس کے اقتصادی ماہرین عوام کے سامنے یہ نقشے پیش کررہے ہیں کہ اس طرح نہر سویز سے ہونے والی آمدن5.5- ارب ڈالر سے بڑھ کر 12- ارب ڈالر ہوجائے گی اور “بددیانت سیاسی قیادت” ایک بار پھر عوام کو خواب دکھا رہی ہے، جس کے نتیجے میں قوم “قرضے کی دلدل” میں پھنستی چلی جائے گی اور حسنی مبارک جیسے حکمرانوں کے غیر ملکی اثاثوں میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

انفراسٹرکچر” کے ذریعے ترقی کا خواب ہر ایسے پسماندہ ملک کو دکھایا جاتا ہے جس کے پاس “معدنی وسائل اور زرعی زمین” موجود ہو پھر اس کو قرض کی دلدل میں پھنسا کر سب کچھ ہتھیا لیا جاتا ہے۔

“آمدورفت کے ذریعے” ترقی کا راگ الاپنے والے یہ سیاست دان اور معاشی پنڈت بھول جاتے ہیں کہ خود برصغیر پاک وہند کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ… 1872ء سے لے کر 1895ء تک انگریز نے ریلوے لائن بچھائی۔

بلوچستان کے چپے چپے کو اس کے ساتھ منسلک کیا۔ کئی سرنگیں کھود کر پٹڑی گزاری گئی۔

خیبر سے کراچی تک لائن بچھی‘ …لیکن ترقی صرف وہیں ہوئی جہاں انگریز چاہتا تھا۔
تمام تعلیمی ادارے راولپنڈی سے لے کر لاہور تک محدود تھے۔

 نہری نظام

صحت کی سہولیات… سب پنجاب کے حصے میں رکھ دی گئیں کیونکہ 1857ء کی جنگ آزادی میں یہاں کے “زمینداروں اور ملتان کے پیروں ” نے سپاہیوں کی ایک کثیر تعداد انگریز کو فراہم کی تھی

سندھ ویران رہا، وہاں اگر تعلیمی ادارے کھلے بھی تو پرائیویٹ

 بلوچستان کو اس قدر عالمی سطح کی ریلوے لائن نے کیا دیا 

…پسماندگی

 …غربت

 …افلاس

 کیا وہاں اسکول، کالج اسپتال کھولے گئے۔ وہاں تو ان کی کوئلے کی کانوں میں بھی جدید آلات نصب نہ ہوئے۔ وہ جیسے غربت کے مارے تھے ویسے ہی رہے۔
 البتہ چند سرداروں کی جیبیں بھریں اور کوئٹہ میونسپلٹی اور “کینٹ” خوبصورت بن گیا کہ یہ حکمرانوں کی بستی تھی۔

لاہور سے اسلام آباد کے موٹروے پر آج بھی 1000- سالہ پرانی تہذیب نظر آتی ہے۔

اس ملک کو اقتصادی راہداری کا نیا خواب دکھایا جارہا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس کے بنتے ہی پاکستان کا ہر شہری خوشحال ہوجائے گا۔

جس ملک میں کرپشن کے گدھ چاروں طرف منڈلا رہے ہوں ، وہاں ایک نہیں 10- اقتصادی راہداریاں بھی بنالی جائیں اس ملک کی غربت دور نہیں ہوسکتی

 بلکہ ویسے ہی جیسے “نہر سویز” مصر کی غربت دور نہ کرسکی۔

کتنے لوگ، خاندان اور گروہ ہیں

جو روز اس گلے سڑے نظام کے تسلسل کی بات کرتے ہیں۔
روز دعائیں کرتے ہوں گے، مزاروں پر چڑھاوے اور دیگیں چڑھاتے ہوں گے۔
 تبصرہ نگاروں کو سرمایہ فراہم کرتے ہوں گے کہ اس جمہوری نظام خصوصاً موجودہ حکومت کے بقا کی بات کرو۔

اسی گلے سڑے جمہوری نظام کا کما ل یہ ہے کہ وزیراعظم فارغ ہوسکتا ہے لیکن سوئٹزر لینڈ میںجمع دولت پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا۔

کیا کمال کی منطق ہے کہ قوم کشمیر کی آزادی کے لیے متحد ہوجائے لیکن کرپشن کے خلاف متحد نہ ہو۔

کس قدر بدقسمت ہوتی ہے وہ قوم جو جنگ پر روانہ ہو اور اس کے لیڈروں پر کرپشن کے الزامات ہوں۔

جس قوم کو ترقی کے خواب گزشتہ سترسال سے دکھائے جارہے ہوں اور اس کے دامن میں غربت و افلاس آئے۔ سی پیک ۔ ایک قابل فکر پہلو یہ بھی ہے

کیا کچھ داؤ پر لگایا جاسکتا ہے