آرمی چیف کا خطاب

0
447

سوشل میڈیا پر جب جھوٹ آپ کے سامنے آتا ہے تو آپکے پاس اس پر تحقیق کرنے کا آپشن نہیں ہوتا ، یہ صرف آپ کو کاپی اور فارورڈ کا آپشن دیتا ہے۔ دین آپ کو کسی کا تمسخر اڑانے سے منع کرتا اور بہتان تراشی کی اجازت نہیں دیتا – آرمی چیف میں یہاں کچھ وضاحت کرنے کی جسارت کروں؟ ۱- سوشل میڈیا کو 12 کروڑ سے زیادہ پاکستانی اور تقریبا ایک کروڑ اوورسیز پاکستانی اپنی راۓ کے اظہار کیلئے استعمال کرتے ہیں، وہ راۓ جو پہلے چند بکاؤ اخبارات اور چینلز کیوجہ سے سامنے نہیں آتی تھی اور ریاستی اشرافیہ کو یہ میڈیا بہت سوٹ کرتا تھا ۲- سوشل میڈیا پر صرف کاپی اور فارورڈ کی آپشن نہیں ہوتی، پہلی آپشن آپ کس کو دیکھنا چاہتے اور کس کو نہیں؟ دوسری آپشن آپ کسی کو پڑھنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ تیسری آپشن آپ کمنٹ میں اس راۓ سے اختلاف کر سکتے ہیں، چوتھی آپشن آپ اسے لائیک کر سکتے ہیں، پانچویں آپشن فارورڈ کر سکتے ہیں، چھٹی آپشن آپ اس کو رپورٹ کر سکتے ہیں، ساتویں آپشن آپ گوگل پر اس کی تحقیق بھی کر سکتے ہیں، کیا یہ آپشنز میڈیا میں موجود تھیں؟؟؟ ۳- سوشل میڈیا کی سب سے بڑی طاقت اور سچائ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کو خریدا نہیں جا سکتا ورنہ آصف زرداری اور نواز شریف پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہوتے، ریاستی ادارے عوام کی محبت ہوتے، ۴- سوشل میڈیا کراۓ پر اتنا ہی دستیاب ہے جتنا آٹے میں نمک، اور یہ نمک ریاستی اشرفیہ اور ریاستی سوشل میڈیا سیل کو سوشل میڈیا پر زندہ رکھ رہا ہے ۵- سوشل میڈیا عوام کی نبض ہے، اسی سوشل میڈیا پر آئ ایس پی آر 9 اپریل 2022 سے پہلے پاکستان کے چند مقبول ترین سوشل میڈیا فورمز میں تھا ۶- سوشل میڈیا کراۓ پر دستیاب صحافتی مشیروں کی موت ہے، اسلئے وہ اسکے بارے میں کنفیوژن پیدا کرتے ہیں، انکی روزی روٹی ختم ہو جاۓ گی اگر سوشل میڈیا اسی طرح چلتا رہا مندرجہ بالا تمام فیکٹرزحقائق ہیں، نا کوئ گالی ہے، نا بد تمیزی اور نا کوئ الزام، نا ڈس انفارمیشن، نا مایوسی ہے، نا ہیجان ہے، اُمید ہے ان پر بھی سنجیدگی سے غور کیا جاۓ گا رہ گئی بات دین کی، دین قانون توڑنے اور اسکا تمسخر اُڑانے سے بھی منع کرتا ہے، دین چوروں کی سہولت کاری سے بھی منع کرتا ہے، دین ظلم سے بھی منع کرتا ہے، دین انسانی حقوق کا احترام سکھاتا ہے، دین کسی کے بیڈ روم کی ویڈیو بنانے سے بھی منع کرتا ہے، دین مظلوم فلسطینیوں اور کشمیریوں کی مدد کی تلقین بھی کرتا ہے، دین زندگی میں سادگی کی بھی تلقین کرتا ہے، دین برداشت کی بھی تلقین کرتا ہے، دین حضرت عمر رضی اللہ عنہ والا احتساب بھی مانگتا ہے، دین اپنی انا مارنے کی تلقین کرتا ہے، دین میرٹ اور انصاف کی تلقین کرتا ہے، حیرت کی بات ہے ان سب بیماریوں کا سوشل میڈیا سے کوئ تعلق نہیں، سواۓ اسکے کہ سوشل میڈیا ان بیماریوں کی نشاندھی کرتا ہے سوشل میڈیا ابھی اتنا طاقتور نہیں ہوا کہ سوڈان کو یورپ بنا کر پیش کر سکے یا جرمنی کو مصر بنا کر پیش کر سکے، اسی طرح پاکستان جو ہے وہی سوشل میڈیا پیش کر سکتا ہے، اسی طرح سوشل میڈیا آصف زرداری کو مومن، نواز شریف کو نیلسن منڈیلا اور عمران خان کو بے ایمان نہیں ثابت کر سکتا اصل میں سوشل میڈیا معاشرے کا آئینہ ہے جسمیں طاقتور اشرافیہ کو اپنی بد صورتی دکھائی دیتی ہے تو وہ آئینہ توڑنے کی بات کرتے ہیں یاد رہے کہ ایسا ہی ایک آئینہ 1971 میں بھی ٹوٹا تھا