پانی بچاو- ملک بچاؤ

0
2312

احمد جواد

مرکزی سیکرٹری اطلاعات پاکستان تحریک انصاف
Jawad.BTH@gmail.com

پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر پانی کی قلت کا شکار ہے۔ لیکن ھماری حالت ایسے ہی جیسے کہ ھم گھر میں نلکا کھولا چھوڑ دیں اور جو ہمارے گھر کو فلڈ کر دے اور پھر ہم اس کی صفائ اور مرمت پر پیسہ اور کوششیں لگائیں۔پانی کی قلت کی شکایت کریں اور چند دن بعد پھر یہی حرکت کریں۔

۱۹۶۸
‎کے بعد کیوں بھٹو،ضیاالحق، بینظیر، نوازشریف آصف زرداری،مشرف ایک بھی ڈیم نہ شروع کر سکے۔

سیلاب سے متعلق رضا فرخ جو ایشین ڈویلپمینٹ بینک میں اعلی عہدے پر فائز ہیں ہر سال سیلاب اور ڈیمز کے حوالے سے یاد دہانی کراتے ہیں۔ پاکستان کیلۓ درد رکھتے ہیں۔ اُن کی سالانہ یاد دہانی حاضر ہے، اس پیغام کے ساتھ کہ عمران خان نے ۱۹۶۸ کے بعد پہلی دفعہ تین ڈیمز کی تعمیر کا آغاز کر دیا ہے۔ انشاللہ کالا باغ ڈیم بھی بنے گا۔

ہم ایک قوم کے طور پر ۷۲ سالوں سے کر رہے ہیں۔

ہر سال مون سون کی آمد ، سیلاب کی صورت میں پورے ملک میں تباہی مچاتی ہے ، ہمیں حکام کی طرف سے ایک ہی ردعمل اور اس کے بعد حکمرانوں کے اسی غیر سنجیدہ سلوک کو دیکھا جاتا ہے اور پھر اگلے مون سون کا انتظار کرتے ہیں۔ کوئی حکومت طوفانی پانی کے نکاسی آب کے نظاموں کے بارے میں نہیں سوچتی ہے ، کم از کم ندیوں پر بڑے شہروں اور بڑے ذخیروں کے لئے۔ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مستقبل میں زیادہ سے زیادہ تیز بارش ہوسکے گی کیونکہ پاکستان سر فہرست دس ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی کی شدت کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ 2010 کا سیلاب میں پاکستان کی معیشت کو ہونے والے معاشی نقصانات 10 ارب ڈالر سے زیادہ تھے جو بھاشا اور کالا باغ ڈیموں کی کل تعمیراتی لاگت کے برابر ہیں۔ اگر 2010 میں تربیلا ڈیم موجود نہ ہوتا تو سیلاب دریائے سندھ یعنی جناح ، چشمہ ، تونسہ ، گڈو ، سکھر اور کوٹری کے تمام راستے بند کردیتا۔ اس تباہی کا تصور کریں ، پاکستان کا پورا نظام آبپاشی 60 فیصد آبادی کے ساتھ بغیر کسی خوراک اور پناہ گاہ کے چلا جاتا ، اور پاکستان کو ہر چیز کی تعمیر نو کے لئے فنڈز کے علاوہ ورلڈ فوڈ پروگرام میں خوراک کی بھیک مانگنی پڑتی۔ تربیلا کو 31 اگست کی رات تقریبا 950،000 کیوسک پانی وصول ہوا اور یہ کابل سے نوشہرہ کے 450،000 کے ساتھ مل کر جب جناح بیراج پر پہنچا تو اس کے بائیں گائیڈ کا باندھ لرزنا شروع ہو گیا تھا، اگر تربیلا وہاں نہ ہوتا تو جناح بیراج ختم ہو گیاتھا۔ یہ سب کچھ مشترکہ طور پر سندھ کے تمام بیراجوں کی ڈیزائن گنجائش سے زیادہ تھا۔ یہ ایک انسانی تباہی تھی کہ اللہ نے ہمیں تربیلا ذخائر کی مدد سے بچایا۔ لیکن ہم ابھی بھی سو رہے ہیں۔ تربیلا کی زندگی 2025 میں ختم ہورہی ہے ، ہمیں فوری طور پر کالا باغ ڈیم بنانے کی ضرورت ہے ورنہ مستقبل میں سندھ طاس میں سیلاب آنے کا سبب بنے گا جس کی وجہ سے 2010 میں تربیلا نے بچا لیا۔ حکومت کو تعلیم ، صحت ، سلامتی اور ردوبدل کے علاوہ دیگر تمام شعبوں میں سرمایہ کاری بند کرنا چاہئے۔ ڈیموں کی تعمیر کے لئے باقی تمام فنڈز ، اور کم از کم کراچی اور لاہور میں فوری طور پر طوفان والے پانی کی نکاسی کے نظام۔ سڑکوں کے پلوں اور دیگر بنیادی ڈھانچے پر خرچ پانچ سال کے لئے روکا جائے۔ بہت دیر ہونے سے پہلے جاگنا ہے۔
آیئے اب ذرا دُنیا پر نظر ڈالیں۔

سنگا پور ساٹھ لاکھ آبادی کا ایک ایسا ملک ہے جہاں ایک بھی دریا نہیں، انڈر گراونڈ پانی سمندر میں گھیرے ہوۓ جزیرے کی وجہ سے ممکن نہیں۔ سنگا پور اپنے پانی کو ری سائیکل کرکے اپنی ۴۰ فیصد پانی کی ضرورت پوری کرتا ہے، بارشوں کے پانی کو بڑے بڑے پانی کے ذخائر میں تبدیل کر چکا ہے۔ منرل واٹر ایکسپورٹ کرتا ہے، سمندری پانی کو فریش پانی میں تبدیل کرتا ہے۔ شدید ترین بارش کے بعد بھی ایک لمحے کیلۓ پانی سڑکوں پر کھڑا نہیں ہوتا بلکہ بارش کا تمام پانی سٹور کر لیا جاتا ہے۔

اسرائیل بھی پانی کے حوالے سےایک کامیابی کی داستان ہے۔ دُنیا کا سب سے بڑا سمندری پانی سے فریش واٹر بنانے کا پلانٹ اسرائیل میں سورک کے مقام پر ہے۔دُنیا میں سب سے زیادہ سیوریج پانی کو فریش واٹر میں تبدیل کرنے کا ریکارڈ (۹۰%)بھی اسرائیل کے پاس ہے۔ اسرائیل میں نل سے بہترین کوالٹی کا پانی پیا جا سکتا ہے۔اسرئیل کی زراعت بھی دُنیا میں ایک کامیابی کی کہانی ہے۔

بھارت نے 5000 بڑے ڈیم بنا چکا ہے، جبکہ ہمارے حکمران چین کی نیند سو رہے تھے۔ ہمارے بڑے ڈیموں کی تعداد صرف ۱۵۰ ہے۔

چین میں دُنیا کا سب سے بڑاڈیم Three Gorges بنایاگیا۔ چین میں 87000 ہزار ڈیم بناۓ گیے ہیں۔ جن میں ۲۳۰۰۰ بڑے ڈیم ہیں۔

ابو ظہبی نے 3 سال کے اندر 100٪ سیوریج پانی کو ری سائیکل کرنے کا پروگرام مکمل کرلیا۔ اس منصوبے سے
العین ، ۲۰۱۴ میں دُنیا کا پہلا شہر بن گیا جس نے 100 فیصد ری سائیکل پانی کو دوبارہ استعمال کیا۔”

معاشرے کی اچھی تربیت اور قانونی اصلاحات سے لاس انجلس آج 1970 کی نسبت کم پانی استعمال کرتا ہے ، جبکہ اس کی آبادی ایک تہائی سے زیادہ بڑھ کر 2.8 ملین سے 3.9 ملین افراد ہوگئی ہے۔

پانی مستقبل کی سب سے بڑی ضرورت اور سب سے بڑی قلت ہو گی۔ سمجھ دار قومیں اپنی آنے والی جنریشن کو بچانے کیلۓ پانی کی سٹوریج، اس کے استعمال کے حوالے سے مستقل کوشششیں کررہیں ہیں۔ پاکستان کو ھنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا۔ ہم نے ۵۰ سال بھٹو،ضیا الحق، بینظیر ، نواز شریف اور مشرف کی حکمرانی میں ضائع کر دیۓ اور کوئ قابل ذکر ڈیم یا نکاسی آب کا پراجیکٹ شروع کر سکے۔ عمران خان نے پہلے دو سالوں میں ہی تین ڈیموں کا آغاز کر دیا ہے۔

کالا باغ ڈیم اس ملک کی سالمیت کا ضامن ہے۔ ملک دشمن عناصر اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ کالا ڈیم ہر صورت بننا چاہیے۔

پانی بچاؤ، ملک بچاؤ کا نعرہ لگانا پڑے گا۔