میں نے عمران خان کے دور حکومت میں پارٹی کی اہم اعلی پوزیشن پر ہوتے ہوۓ کئی نئے چہروں کو عمران خان سے ایک میٹنگ یا عمران خان کے ایک وزیر سے میٹنگ یا سینئر پارٹی عہدے دار سے اپنے کسی ذاتی کام کے سلسلے میں یا ایوارڈ حاصل کرنے کیلئے جوتیاں گھسیٹتے دیکھا، خوشامدیں کرتے دیکھا، ان میں بہت سے نئے چہروں کے فریب کا میں خود بھی شکار ہوا اور بغیر کسی ذاتی غرض کے انکی سہولت کاری معصومیت میں کردی لیکن آج ایسے چہروں کو دوبارہ وزیروں اور حکومتی کوریڈورز میں جوتیاں گھسیٹتے ہوۓ دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ موسمی پرندے ہمیشہ کسی مار میں رہتے ہیں، انکی خواہشات بھی بہت عامیانہ ہوتی ہیں، کسی وزیر کیساتھ ایک تصویر اور فیس بک پر نمائش انکی زندگی کا متاع حیات ہوتا ہے، اسمیں کوئ بہت ہی چھوٹی خواہش یا کام کیلئے یہ خوشامد کی حدیں پار کر جاتے ہیں، ان میں کوئ معیشت کا ایکسپرٹ، کوئ گورنس کا ایکسپرٹ، کسی انڈسٹری کا ایکسپرٹ بن کے واردات لگاتا تھا تاکہ کوئ عہدہ مل جاۓ، کوئ ملک کی خدمت کا چونا لگاتا ہے، میرے لیے یہ سب بڑا تکلیف دہ تھا اور کافی کوشش کی کہ ایسے لوگوں کو expose کروں عمران خان کی حکومت میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا، بہت سے دو نمبر ، موقع پرست، ابن الوقت چہروں کی شناسائ ہوئ، یہی سبق یقینا عمران خان نے بھی سیکھا ہو گا، اُس وقت ہر شام کو نعیم الحق مرحوم کی بیٹھک میں ایسے لوگوں کا ایک ہجوم ہوتا تھا جو کسی عہدے، کسی نوازش، کسی عنایت، کسی ذاتی غرض کیلئے کیسے کیسے سفارشیں لگوا کر ایسی بیٹھک میں پہنچتے تھے،پی ٹی آئ کو دوبارہ حکومت میں آ کر ایسے کلچر کو ختم کرنا ہوگا، عمران خان کے دروازے پر ایسے چوکیدار کی ضرورت ہے جو دو نمبروں کو دروازے سے فارغ کر دے اور قیمتی اور مخلص لوگوں کو سامنے لاۓ یہ کلچر آپ کو ہر طاقتور اعلی عہدے دار کیساتھ بھی نظر آتا ہے، جو اعلی عہدے دار کے بھائ، دوست، بیٹے، داماد، بہو،سسرال، رشتے دارکے ذریعے اُس طاقتور عہدے دار تک رسائی حاصل کرتے ہیں اور پھر کوئ نا کوئ فائدہ لیتے ہیں، اس دروازے کو بند کرنا ہوگا تاکہ میرٹ پر ایک عام آدمی کو مقابلہ کرنے کا موقع ملے ایسے ابن الوقت لوگوں سے میرا سوال ہے کہ کیا انسان کی اپنی کوئ غیرت، عزت، وقار نہیں ہوتا جو ذاتی مفاد کی خاطر ذلیل و خوار ہوتے رہتے ہیں اور اس سے کیا حاصل کرتے ہیں، کوئ ذاتی چھوٹا سا فائدہ؟ کسی چور، کرپٹ کیساتھ تصویر کھنچوا کے کیا حاصل کرو گے؟ زندگی کو اتنا بے وقعت کیوں کرتے ہو، انسان کی عزت و وقار خودی میں ہے، جوتیاں گھسیٹنے میں نہیں “ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے”