Writer is Chief Visionary Officer of World’s First Smart Thinking Tank ”Beyond The Horizon” and most diverse professional of Pakistan. See writer’s profile at http://beyondthehorizon.com.pk/about/ and can be contacted at “pakistan.bth@gmail.com”
آلودہ پانی اوربھوک سے دم توڑتی ہر زندگی کے ساتھ بھٹو زندہ ہے
احمد جواد
بھٹو کی برسی پر اس کو ہیرو قرار دینے کے لئے جب میں قابل احترام مصنفین کو داد کے ڈونگرے برساتے اور بھٹو کو زندہ قرار دیتے دیکھتا ہوں تو مجھے واقعی بھٹو زندہ دکھائی دینے لگتا ہے۔ہیرو تو دفن ہو چکا مگر اس کی 47 سالہ میراث سندھ کے غریب ہاریوں اور تھر کے باسیوں کے لئے روک بن گئی ہے جو بھوک ، آلودہ پانی اور صحت و تعلیم کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے مر رہے ہیں اور اس کے وارث پچھلے 25سال سے سندھ پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ماضی میں بھٹو پر کیا گیا ایک تبصرہ پیش خدمت ہے۔
60کی دہائی میں پاکستان میں تعینات برطانیہ کےہائی کمشنر سر مورس جیمز نے ذوالفقار علی بھٹو کے بارے جامع ترین تبصرہ اپنے پاکستان کرانیکلز میں اس طرح اختصار کے ساتھ پیش کیا
بھٹو میں بلندیوں کو چھو لینے، آگے بڑھنے، من موہ لینے، حسنِ فکر، ذہنی پُھرتی ، زود فہمی، زندگی کی چاہ،فصاحت بیان، بھر پور توانائی، حُسن ترتیب، حِس مزاح اور قوت برداشت جیسی بہت سی خوبیاں تھیں۔اتنی ہمہ جہتی کا مرکب آج کل نا پید ہے ۔بھٹو اقتدار تک پہنچنے کا حق دار تھا۔مجھے 1962ء کے اواخر سے اس کے ساتھ بہت قریب رہ کر کام کرنے کا موقع ملا۔اس جیسے زندہ دل اور فصیح شخص کے ساتھ کام کرنے کا اپنا مزہ تھا۔
ہمارے معاملات بڑے اچھے چل رہے تھے مگر کیسے کہوں کہ مجھے اس سے گِھن آنے لگی۔ وہ جو کہتے ہیں بڑے لوگوں کی عام بُرائیاں بھی بہت بڑی ہوتی ہیں۔وہ ستارہ سحری تھا جو اپنی تاب کھو رہا تھا یا ایک فرشتہ جو پستی میں جاتے جاتے اپنا توازن کھو رہا تھا۔مجھ یقین ہے اس کے دل میں دوسروں کے لئے نہ کوئی قدر تھی اور نہ ہی عزت۔ اس کے لئے اپنی ذات ہی سب کچھ تھی۔اس میں ظلم و ستم ؑھانے کا ملکہ قدرتی طور پر بہت زیادہ تھا۔یونیورسٹی کے زمانے کے علاوہ اس نے زندگی بھر اوسط درجے کے لوگوں کو اپنے قرب و جوار میں رکھا۔ یوں اُس نے اپنی پسندیدہ کامیابیاں با آسانی حاصل کر لی تھیں۔اس میں عاجزی تو تھی ہی نہیں کیونکہ وہ خود کو غلطیوں سے مبرّا سمجھتا رہا۔حالانکہ 1965ء کی جنگ کے دوران اس کے وسیع سیاسی اور فوجی تجربے کے با وجود تباہ کن نتائج برآمد ہوئے۔اس کی تمام تر خوبیوں کے باوجود مجھے لگتا تھا کہ ایک دن بھٹو خود کو تباہ کر لے گا مگر کب اور کیوں یہ مجھے پتہ نہ تھا۔1965ء میں پاکستان سے برطانوی ہائی کمشنر کی حیثیت سے اپنے آخری مراسلے میں از راہ تفنن میں نے لکھ دیا تھا کہ بھٹو پھانسی پانے کے لئے پیدا ہوا تھا۔میں نے یہ پیش گوئی تبصرہ کے طور پر کی تھی مگر 14سال بعد عین وہی ہوا جس کا مجھے اندیشہ تھا” ۔
Bhutto Zinda Hai with every death caused by hunger and unsafe water.
By Ahmad Jawad
Bhutto is really alive when I see some able writers making him alive on his death anniversary by showering limitless praise and honours to make him hero. The hero has died but his legacy is such a curse for poor Haris of Sindh and Thar that people are dying everyday dying of hunger, unsafe water & lack of basic health and education facilities even after 47 years of his legacy which includes 25 years rule only in Sindh.
Here is an opinion on Bhutto from the past:
Perhaps, the most precise assessment of ZAB has been summed up by Sir Morrice James, Britain’s High Commissioner in Islamabad during 1960’s, in his Pakistan Chronicle:
“Bhutto certainly had the right qualities for reaching the heights — drive, charm, imagination, a quick and penetrating mind, zest for life, eloquence, energy, a strong constitution, a sense of humour and a thick skin. Such a blend is rare anywhere, and Bhutto deserved his swift rise to power. From the end of 1962 onwards, I worked closely with him and it was a pleasure to deal with someone so quick-witted and articulate. We got on remarkably well…“But there was — how shall I put it? — the rank odour of hellfire about him. It was a case of corruptio optimi pessima. He was a Lucifer, a fallen angel. I believe that at heart he lacked a sense of the dignity and value of other people; his own self was what counted. I sensed in him a ruthlessness and a capacity for ill-doing which went far beyond what is natural. Except at university abroad, he was mostly surrounded by mediocrities, and all his life, for want of competition, his triumphs came to him too easily for his own good. Lacking humility, he thus came to believe himself infallible, even when yawning gaps in his own experience (e.g. of military matters) laid him — as over the 1965 war — wide open to disastrous error. “Despite his gifts, I judged that one day Bhutto would destroy himself — when and how I could not tell. In 1965, I so reported in one my last dispatches from Pakistan as British high commissioner. I wrote by way of clinching that point that Bhutto was born to be hanged. I did not intend this comment as a precise prophecy of what was going to happen to him, but 14 years later that was what it turned out to be.”