لاہور کو ’منہ متھا ‘ دینے والا، جسے کوئی یاد نہیں کرتا

0
1420

Source: Social Media

لاہور کا موجودہ چہرہ گنگا رام کا مرہونِ منت ہے۔ مال پر مئیو سکول آف آرٹ (موجودہ نیشنل کالج آف آرٹس)،لاہور میوزیم ، گورنمنٹ کالج لاہور کے کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ ، جی پی او، لاہور کیتھڈرل، ہائی کورٹ ، ایچی سن کالج کی ڈیزائننگ، پلاننگ اور تعمیر سر گنگا رام کے ہاتھوں انجام پائی ۔

البرٹ وکٹر ہسپتال، سر گنگا رام سکول ( اب لاہور کالج برائے خواتین )، ہیلی کالج آف کامرس ، لیڈی میکلیگن سکول ، لیڈی مینارڈ انڈسٹریل سکول بھی انہوں نے بنائے۔ لائل پور ڈسٹرکٹ کورٹس بھی گنگا رام نے بنائیں۔

اس کے علاوہ سر گنگا رام نے پٹھانکوٹ اور امرتسر کے درمیان ریلوے ٹریک بچھایا۔
لیکن سر گنگا رام کا لاہور پر سب سے بڑا احسان ماڈل ٹاؤن کا قیام تھا۔ 27 فروری 1921ء کو چند معزز شہریوں نے سرگنگا رام کی صدارت میں لاہور شہر سے باہر ایک ہزار ایکڑ پر مثالی ہاؤسنگ سکیم کا منصوبہ بنایا جو آج بھی لاہور کی سب سے اچھی آبادی سمجھی جاتی ہے۔ ان کی مہارت کی وجہ سے انہیں دہلی میں امپیرئیل اسمبلی کی تعمیر میں مدد کیلئے بھی بلایا گیا۔

لارڈ رپن نے ان کے کام سے متاثر ہوکر انہیں دو سال کے لئے بریڈ فورڈ ( برطانیہ) بھیجا ،جہاں انہوں نے واٹر ورکس اور ڈرینیج کی تربیت حاصل کی جو ان کے بہت کام آئی ، لاہور میں پہلا جدید سینی ٹیشن سسٹم اور واٹر ورکس کا نظام انہوں نےقائم کیا جو تقریباً سو سال تک لاہوریوں کی ضروریات پوری کرتا رہا۔

گنگا رام نےضلع لائل پور میں بچیانہ ریلوے سٹیشن سے اپنے گائوں گنگا پور تک لوہے کی پٹڑی بچھا کر اس پر گھوڑا ٹرین چلائی جو کچھھ عرصہ پہلے تک چل رہی تھی۔
گنگا رام 1851 میں مانگٹاں والا میں پیدا ہوئے۔ یہ گائوں لاہور سے 40 اور ننکانہ صاحب سے 14 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ ان کے والد دولت رام وہاں اے ایس آئی تھے۔ کچھہ عرصے بعد وہ امرتسر چلے گئے اور وہاں عدالتی نقل نویس بن گئے۔ گنگا رام نے ابتدائی تعلیم وہاں دو سکولوں میں حاصل کی ۔اس زمانے میں ان خوش خطی اور فارسی میں مہارت کا چرچا تھا ۔ 1868 میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ 1871 میں وظیفہ لے کر تھامسن کالج آف سول انجنئیرنگ میں داخل ہوئے( جو بعد میں انڈین انسٹی تیوٹ آف ٹیکنالوجی روڑکی کہلایا) گنگا رام نے1873 میں بائیس سال کی عمر میں انجینئرنگ کی ڈگری گولڈ میڈل کے ساتھہ حاصل کی اور اسی سال یعنی 1873ء میں لاہور کے اسسٹنٹ انجینئر کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔

گنگا رام نے 1903 میں ملازمت سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر زراعت کا پیشہ اختیار کیا۔ منٹگمری اور لائل پور کے اضلاع میں 50 ہزار ایکڑ بنجر زمین پٹے پر لی اور اریگیشن اور انجنئیرنگ مین اپنی مہارت استعمال کرتے ہوئے صرف تین سال میں اسے سرسبزو شاداب بنادیا۔ یہ زمین بعد میں 90 ہزار ایکڑ تک پہنچ گئی۔ بیشتر زمین نہر سے اونچی تھی ، گنگا رام نے ایس مشینیں منگائیں جن سے پانی بنجر زمین تک لایا جا سکے۔ مشینیں ریل گاڑی پر بچیانہ ریلوے سٹیشن تک تو آگئیں ، آگے لے جانےگنگا رام نے اپنے گاٗئوں تک لوہے کی پٹڑی بچھائی اور اس پر گھوڑا ٹرین چلاکر مشینری مطلوبہ جگہ تک پہنچائی۔ یہ پٹڑی اور گھوڑا گاڑی بعد میں لوگوں کے استعمال میں رہیں۔

گنگا رام نے رینالہ خورد میں بجلی گھر بھی لگایا ۔ ریٹائرمنت کے بعد کچھہ عرصے کیلئے مہاراجہ پٹیالہ نے ان کی خدمات حاصل کیں۔ انہوں نے شاہی محل سمیت پٹیالہ کی کئی عمارتوں کی شکل ہی بدل دی ۔

گنگا رام نےلاکھوں روپے کمائے لیکن عیش وعشرت کی بجائے خدمتِ خلق پر خرچ کئے۔ گنگا رام ٹرسٹ بنایا۔ جس کے تحت گنگا رام ہسپتال بنا اور بعد میں ان کے خاندان نے گنگا رام کے بیٹے کے نام پر بالک رام میڈیکل کالج بنایا۔ سنا ہے ان کا خاندان بعد میں بھی گنگا رام ہسپتال کیلئے عطیات بھیجتا رہا۔

گنگا رام کا 10 جولائی 1927 کو لندن میں ان کے مکان میں انتقال ہوا۔ انہیں وہیں نذرِ آتش کرکے ان کی کچھہ راکھہ گنگا میں بہائی گئی اورباقی ان کی وصیت کے مطابق راوی کنارے دفن کی گئی۔ راوی روڈ پر ان کی سمادھی موجود ہے۔

گنگا رام موجودہ پاکستان کے علاقے میں پیدا ہوئے اور اسی کی خاک میں مل گئے
لیکن ہم، پنجاب کے اس عظیم فرزند اور لاہور کے محسن کو یاد کیوں نہیں کرتے ؟
موجودہ بھارت کے کسی علاقے سے گنگا رام کا تعلق نہیں تھا ،لیکن بھارتی حکومت نے ان کےاعزاز میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا ۔

ہم نے گنگا رام کے پیسوں سے بنوائے ہوئے میڈیکل کالج کا نام بدل کر فاطمہ جناح میڈیکل کالج رکھہ دیا

گویا ہم اپنی ’مادرِ ملت‘ کو خراجِ عقیدت بھی اپنے پلے سے ادا نہیں کر سکتے
son of soil
کا نام ختم کر دیا گیا ،لیکن کنگ ایڈورڈ، ملکہ وکٹوریہ کے ناموں پر اداروں کے نام بدلنے کی کسی کو جرأت نہیں !