Myth of Pessimism or Optimism

0
1984

By Ahmad Jawad


Writer is Chief Visionary Officer of World’s First Smart Thinking Tank ” Beyond The Horizon” and most diverse professional of Pakistan. See writer’s profile at http://beyondthehorizon.com.pk/about/


In our country, there is nothing between Pessimism or Optimism. Some find Metro, Orange train, fly overs, new roads as sign of a progressive Pakistan. Some find institutional weakness as a reason towards total destruction. Our conclusion of Pessimism and Optimism is the result of our habit of generic outlook on issues. Such approach leaves little choice between Black and White. Such choice draws lines between two groups: Optimist and Pessimist. Country is seen as a darkness and simultaneously country is seen as a light house. If metro is helping economy of Pakistan, it can only be seen through global standards or comparison to other projects by matching fruits of each project.

If our institutions are fragile, it can only be justified through comparisons or fact sheets.

A methodology once applied through comparisons & fact sheets is no more a debate of Pessimism and Optimism, it becomes a writing on wall, though lens of Pessimism and Optimism will show a blank wall.

Nation needs to be trained on such analysis to make better choices for themselves, to know real enemy, to know our weaknesses, to know reality, to avoid myths, to identify holes in our walls, to create courage to see how weak foundations are laid under feet and even plan your rescue pack.

On a lighter note, When Superman’s father realised that he could do nothing to save his planet and could see his planet going down soon, he planned rescue plan for his child.

Diagnosis is the first step towards solution. We are even one step behind ” Diagnosis” because our diagnosis oscillate between Day and Night. This leaves us with a basic understanding of day and night but we miss to analyse why day turns into night after sunset and how night ends with Sunshine.

Our ability to analyse has to rise above day and night. It has to be specific, hitting the root cause, exposing the root cause. The day we are able to see the root cause and the day we are able to recognise the threat and challenge, our journey to solution will start.


امید و بیم کاا فسا نہ

احمد جواد

نا امیدی ہو یا پُر امیدی، ہمارے ملک میں تو  ان دونوں میں فرق نہیں روا رکھا جاتا۔ کچھ لوگوں کے نزدیک میٹرو، اورنج لائن، فلائی اوورز اور نئی شاہراہیں ترقی کرتے پاکستان کی آئینہ دار ہیں جبکہ کچھ لوگ اداروں کی کمزویوں کو مکمل تباہی کا شاخسانہ سمجھتے ہیں۔حسب عادت مسائل کے بارے ہمارے سطحی نقطہ ء نظر کی طرح ہم امید و بیم کے بارے اپنی اپنی رائے رکھتے ہیں۔اس طرح کی سوچ سے سیاہ اور سفید میں ہم کوئی فرق نہیں دیکھتے۔حالانکہ اندونوں کے درمیان فرق سے رجائیت اور یاسیت کے دو گروپ بنتے ہیں۔کچھ لوگوں کو ملک اندھیروں میں بھٹکتا نظر آتا ہے جبکہ کچھ لوگ اس کو روشنی کے مینار سے تشبیہ دیتے ہیں۔بین الاقوامی معیار کے مطابق ہر ثمر آور منصوبے کے ساتھ تقابل سے پرکھا جائے گا کہ میٹرو کا منصوبہ ملکی معیشت میں بہتری کا باعث بنا ہے یا نہیں۔حقائق اور اعداد و شمار کے تقابل سے ہی ہمارے اداروں کو شکستہ قرار دیا جا سکتا ہے۔اگر حقائق اور تقابل کا طریقہ ایک بار اپنا لیا جائے تو امید اور نا امیدی کی بحث ختم ہو جائے گی اور نتیجہ دیوار پر صاف لکھا نظر آئے گا۔اگرچہ امیدوبیم کی نظر سے دیوار پر کچھ بھی لکھا نظر نہ آئے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کو تجزیہ کرنے کی تربیت دی جائے تاکہ ا س کے پاس بہتر ذرائع ہوں جن سے وہ اپنے اصل دشمن کی شناخت کر سکے، اسے اپنی کمزویوں کا ادراک ہو سکے، حقائق کا پتہ چل سکے،مفروضوں سے گریز کر سکے اورپیندے میں موجود سوراخوں کی نشاندہی ہو سکے۔ہم میں یہ دیکھنے کی جرات پیداہو کہ ہمارے قدموں کے نیچے کی بنیاد کس قدر شکستہ ہےتاکہ ہم اپنے بچاؤ کی تدبیر کر سکیں۔بر سبیل تذکرہ جب سُپر مین کے والد نے محسوس کیا کہ اس کا سیارہ نیچے گر رہا ہے اور وہ اس کو نہیں بچا پائے گا تب اس نے اپنے بچے کو خطرے سے نکالنے کی تدبیر کی۔

چھان پھٹک مسائل کے حل کی پہلی کڑی ہے اور ہم تو تجزیہ کی پہلی سیڑھی سے بھی ایک قدم پیچھے ہیں کیونکہ ہمارا تجزیہ دن اور رات کے درمیان ڈگمگاتا رہتا ہے۔اس سے ہمیں دن اور رات کی بنیادی حقیقت کی سمجھ بوجھ تو مل جاتی ہے مگرہمیں یہ سراغ نہیں ملتا کہ غروب آفتاب کے بعد دن رات میں کیونکر ڈھل جاتا ہے اور سورج کی چمک کے ساتھ ہی کس طرح رات ختم ہو جاتی ہے۔

ہماری تجزیہ کرنے کی اہلیت کو دن رات کے شمار سے آگے بڑھنا ہوگا۔ یہ تجزیہ تیر بہدف ہونا چاہیئے جو سیدھا مسئلے کی جڑ کو لگے اور اس کو بے نقاب کرے۔ جس دن ہم قضیئے کی جڑ دیکھنے کے قابل ہو جائیں گے، جس دن ہم اس کے خطرات کو بھانپنے کے اہل ہو گئےاسی دن ہمارے مسائل کے حل کا سفر شروع ہو جائے گا۔