جب صحافی اور طوائف میں کوئ فرق نہیں رہتا؟ – احمد جواد

0
171

جب صحافی اور طوائف میں کوئ فرق نہیں رہتا؟

احمد جواد

صحافت دنیا کا سب سے مقدس پیشہ اسلئے ہے کہ نڈر صحافت ایک نڈر قوم بناتی ہے، قوم کو آگاہی دیتی ہے، ظلم کے خلاف آواز بلند کرتی ہے، مظلوم کی آواز بنتی ہے، جھوٹ کو بے نقاب کرتی ہے،صحافت آگاہی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے

ایک خبر کےمطابق وٹس ایپ میں خاص حلقے سے ہدایات کی روشنی میں ٹی وی چینلز پر نام نہاد صحافی وہی خبر اُسی انداز میں چلا رہے ہیں، خاص جگہ سے خاص ہدایات کا واحد مقصد عمران خان کو 9 مئی کے واقعات کا ذمہ دار ٹھہرانا ہے اور کسی طرح سے عمران خان کی کریڈیبلیٹی پر سوال اُٹھانا ہے، آجکل کی صحافت نامی طوائف مسنگ پرسن کے میزبان بن کر انٹرویو کرتی ہے، جسطرح ایک طوائف کے پاس جسم بیچنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا، اسی طرح ایسے نام نہاد صحافیوں کے پاس قلم بیچنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا، قوم کو ایسی طوائفوں کو یاد رکھنا چاہیے

میں نے بچپن اور جوانی میں ایسی صحافت کو بڑے نزدیک سے دیکھا جس میں علم، ریسرچ، محنت، راست بازی اور حق گوئ بنیاد تھی، ایسی صحافت کراۓ کے دس مرلے کے مکان میں رہتی تھی اور اس صحافت کے گھر میں سب سے زیادہ کتابیں ہوتی تھی، ایسی صحافت جو اصولوں پر کھڑی رہتی تھی جسے ایوب خان بھی نا ڈرا سکا، جسے ضیاالحق کے کوڑے بھی نا ڈرا سکے، جسے بھٹو، نواز شریف بھی نا ڈرا سکے، جسے مشرف بھی کنٹرول نا کر سکا، ان سب کو کتابوں میں گھرے دیکھا، پبلک ٹرانسپورٹ پر دفاتر جاتے دیکھا، سادہ زندگی، جہاں علم کی دولت بھری ہوئ تھی اور اُس گزارے ہوۓ قیمتی وقت نے مجھے اصل صحافی اور آج کے طوائف نما صحافی کا فرق سمجھا دیا

سن 2000 کے بعد صحافیوں کی اکثریت اور ایک طوائف میں زیادہ فرق نا رہا، طوائف جسم بیچتی ہے، اور وہ صحافی جو اپنا قلم اور اپنی آواز بیچتا ہے، دونوں کو خریدا جاتا ہے، جو دلالوں کے ساتھ جڑے رہتے ہیں، دونوں بار بار خریدے جاتے ہیں، دونوں کا دھندا بکنا ہے، طوائف کی گندگی مخصوص لوگوں تک پہنچتی ہے، صحافت کی گندگی پوری قوم تک پہنچتی ہے

طوائفوں والے ملکوں میں انصاف، قانون کی حکمرانی اور ترقی ممکن ہے، لیکن جہاں صحافت بکتی ہے وہ قوم تباہ ہو جاتی ہے، طوائفوں کو ریڈ لائیٹ ایریا تک محدود کیا جا سکتا ہے، لیکن صحافت تو ہر گھر تک پہنچتی ہے، کاش زرد صحافت کیلئے ریڈ لائیٹ ایریا کیساتھ ایک زرد لائیٹ ایریا بھی بن سکتا، جہاں ایسے صحافیوں کو رکھا جا سکتا تاکہ قوم محفوظ رہے، ایسے صحافی جو،سیاست میں داخل ہوۓ بغیر، وزیر، مشیر اور اعلیٰ عہدے دار بن جاتے ہیں، نوکریاں چل کے انکے گھر پہنچ جاتی ہیں یا وہ صحافی جو لینڈ کروزر، فارم ہاؤس اور بڑے بڑے گھروں میں رئیسوں کیطرح رہتے ہیں، ایسے صحافی صحافت کو دھندے کیطرح چلاتے ہیں، کسی صحافی کے مالدار ہونے پر اعتراض نہیں لیکن دولت حاصل کرنے کے طریقہ کار پر اعتراض ہے

آج بھی چند گنتی کے صحافی موجود ہیں جو صحافت کے پیمانے پر پورا اُترتے ہیں لیکن وہ سب کارنر ہو چکے ہیں

جس نظام کو ننگا کرنے کی ذمہ داری صحافت پر تھی، اُس نظام کو عمران خان نے ننگا کیا، سوشل میڈیا کے ذریعے، جبکہ میڈیا کو اپنی دوکان چمکانے کیلئے سوشل میڈیا کو فالو کرنا پڑا

عمران خان اور سوشل میڈیا شاید اس ملک میں حق اور سچ کی آخری آوازیں ہیں لیکن دونوں کو دبایا جا رہا ہے، اگر یہ دونوں آوازیں دبا لی گئیں تو اس زمین پر سچ کبھی نہیں پیدا ہوگا، جھوٹ کی جیت قوم کی ہار ہوتی ہے اور آج قوم ہار رہی ہے