در غلامی تن ز جان گردَد تہی از تنِ بے جاں چہ امیدِ بہی

0
86

غلامی میں بدن، جان (روح) سے خالی ہوتا ہے اور تن بے جان سے بھلائی کی کیا امّید رکھی جا سکتی ہے ذوقِ ایجاد و نمود از دل روَد آدمی از خویشتن غافل روَد دل میں تخلیق اور اظہار کا ذوق باقی نہیں رہتا آدمی اپنے آپ سے غافل ہو جاتا ہے جبرئیلے را اگر سازی غلام بر فتد از گنبدِ آئینہ فام اگر تو حضرت جبریل علیہ السلام کو غلام بنا لے تو وہ بھی ( آسمان کے) گنبد آئینہ فام سے نیچے گر پڑے گا کیشِ او تقلید و کارش آزریست ندرت اندر مذہبِ او کافریست غلام کا مسلک تقلید اور اس کا کام بت گری ہے، اس کے مذہب میں ندرت ( نئی چیز پیدا کرنا) کافری شمار ہوتی ہے تازگی ہا وہم و شک افزایدش کہنہ و فرسودہ خوش می آیدش نئی چیزیں اس کا وہم و شک بڑھا دیتی ہیں وہ پرانی اور فرسودہ پر خوش رہتا ہے چشمِ او بر رفتہ از آیندہ کور چوں مجاور رزقِ او از خاکِ گور اس کی نظر صرف ماضی پر رہتی ہے اور وہ مستقبل کے بارے میں اندھا ہوتا ہے، مجاور کی طرح وہ اپنا رزق قبر کی مٹی سے حاصل کرتا ہے (مردہ روایات کا پجاری بن جاتا ہے) گر ہنر ایں است مرگِ آرزوست اندرونش زشت و بیرونش نکوست اگر یہی ہنر ہے، تو اس میں آرزو کی موت ہے ایسے ہنر کا اندرون برا اور بیرون خوبصورت ہے طایرِ دانا نمی گردَد اسیر گرچہ باشد دامے از تارِ حریر سمجھدار پرندہ قیدی نہیں بنتا خواہ جال ریشم کا بنا ہوا کیوں نہ ہو ( سمجھدار لوگ ایسے آرٹ سے متاثر نہیں ہوتے) زبورِ عجم