عمران خان کیساتھ رہتے ہوۓ انکی ترجیحات کو سمجھنے کی ضرورت ہے

0
199

دو ہزار دس میں جب میں نے عمران خان کو جرمنی کے دورے کی دعوت جرمنی کی گرین پارٹی کی طرف سے پہنچائ جسمیں بزنس کلاس ٹکٹ، 5 سٹار ہوٹل، جرمن حکومت کی میزبانی، سیمینار سے خطاب شامل تھا، عمران خان بلکل دلچسپی نہیں تھے اور مجھے کہنے لگے اس سے پارٹی کو پاکستان میں کیا فائدہ ہوگا، اور یہ کہ پاکستان میں کام کرنے کی ضرورت ہے نا کہ غیر ملکی دوروں کی، اس دوران عمران خان لندن میں بچوں سے ملنے گئے تو میں نے دوبارہ کوشش کی کہ لندن سے جرمنی دو گھنٹے کی فلائیٹ ہے، عمران خان صرف میرا دل رکھنے کیلئے تیار ہو گئے اور جرمنی کا دورہ کیا لیکن پورے دورے میں مجھے یہ بھی کہتے رہے کہ وقت کا ضیاع ہے، اور میں شرمندہ ہوتا رہا لیکن مجھے یہ بات بہت عرصے بعد سمجھ آئ کہ عمران خان کو تو دنیا کے ہر ملک سے دعوتیں ہیں جو بزنس کلاس ٹکٹ اور سب سہولیات دینے کو تیار ہیں لیکن عمران خان صرف عظیم قومی مقاصد کو مد نظر رکھتے ہیں اور انکے مقاصد میں شوکت خانم کینسر ہاسپیٹل اور پاکستان میں تبدیلی ہے، جس کیلئے وہ کہیں بھی سفر کر سکتے ہیں، اب یہ فارن آفس والی بات سُن کر ان کی زندگی میں فوکس کو ظاہر کرتی ہے، دوسری طرف سیاست دان اور سرکاری اور فوجی افسران بیرون ملک سفر کیلئے ترس رہے ہوتے ہیں، چونکہ میں خود فوجی افسر رہا ہوں تو مجھے اندازہ ہے کہ ہم بیرون ملک کورس، دورے کرنے کے بہانے ڈھونڈتے تھے جس سے ٹی اے ڈی اے، مفت ٹکٹ، مفت ہوٹل، مفت کھابے اور ساتھ میں کچھ تحائف بھی مل جاتے تھے، عمران خان اس قوم سے بلکل مختلف ہے، کوئ لالچ، حرص، کوئ ذاتی فائدہ اس کے مینو میں نہیں ہے، اورسیاست دان تو بیرون ملک دوروں کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں، نگران وزیراعظم جس کی واحد ڈیوٹی الیکشن کروانا ہے، وہ اقوام متحدہ کا اجلاس اٹینڈ کر رہا ہے، وہ بھی آٹھ لاکھ فی رات والے ہوٹل کے کراۓ پر

یہاں میں یہ بھی ذکر کر دوں کہ 7 سال بعد جب وہ میرے اسلام آباد میں ریسٹورنٹ کا افتتاح کرنے آۓ تو پارٹی لیڈرشپ کو میرے حوالے سے کچھ تعریفیں بھی کیں اور ازراہ مذاق جرمنی والے دورے کا بھی ذکر کیا کہ اس نے میرا وقت ضائع کیا اور میں ایک دفعہ پھر شرمندہ ہو گیا، عمران خان کیساتھ رہتے ہوۓ انکی ترجیحات کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو انکی ذات سے بالا تر ہیں