مجیب اور عمران میں کیا فرق ہے؟ 1971 اور 2023 میں کیا فرق ہے؟ کڑوا ترین سچ؟

0
480

دونوں پاکستان کی 76 سال تاریخ کے دو مقبول ترین سیاسی لیڈر ہیں،دونوں محب وطن، دونوں کو جیل ہوئ، دونوں نے ڈیل سے انکار کیا، لیکن ایک بڑا فرق ہے دونوں میں، ایک بڑا فرق ہے 1971 اور 2023 میں ہے؟ مجیب اور بنگالیوں کی مدد کیلئے بھارتی فوج مشرقی پاکستان پر ٹوٹ پڑی، پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے کے مقصد کیساتھ، اور اسمیں وہ کامیاب رہے، دو ٹکڑے کیے، پاک فوج کی شکست آجتک ورلڈ وار ٹو کے بعد سب سے بڑی شکست اور ہتھیار ڈالنے کی مثال ہے، جسمیں آدھا ملک بھی گیا اور 90 ہزار فوجی قیدی بنے، آج بھی بھارت کی نیت اور پلان وہی ہے جو 1971 میں تھا، یعنی پاکستان کے مزید ٹکڑے کرنے کا پلان، لیکن اسدفعہ یہ مقصد مجیب کیطرح عمران خان کی مدد سے نہیں ہو سکتا، کیونکہ اگر عمران خان کامیاب ہوگا تو پاکستان متحد ہو جاۓ گا لیکن اگر عمران خان کو ختم کرنے کا منصوبہ جاری رہا، تو بھارتی منصوبہ ایک دفعہ پھر کامیاب ہو جاۓ گا، اسلئے بھارت اس دفعہ نا تو کوئ حملہ کرے گا، نا کوئ سرحدی خلاف ورزی جبتک عمران خان کیخلاف آپریشن جاری ہے، بھارت کا مقصد اسدفعہ اتنا کامیاب ہے کہ اسے کسی جنگی پلان کی ضرورت نہیں، اسدفعہ پاکستان کے اندر سے ہی سب سہولت کاری مل گئی اس دفعہ بھارت نے پاکستان توڑنے کیلئے مہرہ نواز شریف کو چنا ہے، زرداری اور روایتی سیاست دان اس پلان کے سہولت کار ہیں، چونکہ شریف، بھٹو، زرداری، فضل الرحمان، ایم کیو ایم، اے این پی اور دوسری روائتی پارٹیوں کی سیاست متحد پاکستان میں ختم ہو چکی ہے اور انہیں متحد پاکستان سوٹ نہیں کرتا، انکا اقتدار اور اختیار صرف پاکستان کے ٹکڑے ہونے میں قائم رہ سکتا ہے، متحد پاکستان میں نہیں چاہے سائفر ہو یا لندن پلان؟ دونوں کے پیچھے اجیت دیول ماسٹر مائینڈ ہے، سوال یہ ہے کہ ہم بھارت کی سازش کا مسلسل شکار کیوں ہیں؟ بھارت سے کوئ گلہ نہیں کیونکہ بھارت وہی کر رہا ہے جو کوئ بھی علاقائ طاقت اپنے علاقے میں اپنا اثرو رسوخ قائم رکھنے کیلئے کرتی ہے، شکایت تو اپنے محافظوں سے ہے کہ ہمارا حفاظتی نظام کیوں اتنا کمزور ہے کہ ہم بھارت کیلئے ہمیشہ تر نوالہ بن جاتے ہیں، اسکی ایک ہی وجہ ہے کہ پاکستان کی بھاگ دوڑ نالائق ترین، کرپٹ ترین اور غداروں کے ہاتھ میں رہی جو اپنی کرپشن اور اختیار کو بچانے کیلئے آجتک بیرونی ایجنڈے کے ایجنٹ بنے ہوۓ ہیں آج بھارت کے منصوبے کو ناکام کرنے کیلئے عمران خان کا ساتھ دینا پڑے گا، ہمارے ملک کی سالمیت اسی میں ہے، آج پاکستان کی جنگ کسی فوج نے نہیں لڑنی بلکہ پاکستان کی عوام نے خود لڑنی ہے