Profumo Sex Scandal in 1961.

0
1322

Writer is Chief Visionary Officer of World’s First Smart Thinking Tank ”Beyond The Horizon” and most diverse professional of Pakistan. See writer’s profile at http://beyondthehorizon.com.pk/about/ and can be contacted at “pakistan.bth@gmail.com”


1961ء کا پروفیومو جنسی سکینڈل

احمد جواد

1961ء کے اوائل میں پروفیومو کے معاشقے پر مبنی ایک جنسی سکینڈل نے برطانوی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔اخبار نیو یارک ٹائمز کےمطابق اس سکینڈل کا مرکزی کردار کرسٹین کیلر نامی ایک کیبرے ڈانسر اور ماڈل تھی جس کےاس وقت کے دفاع کے نائب وزیرجان پروفیومو کے ساتھ عشقیہ تعلقات تھے۔پروفیومو کے بخت کا ستارہ اس دور کے وزیر اعظم ہیرالڈ میکملن کے دور میں عروج پر تھا۔ دسمبر 2017ء میں 75کی عمر میں وفات پانے والی کرسٹین کا اُن دنوں بیک وقت برطانیہ میں روسی سفارت خانے میں بطورفوجی اتاشی خدمات انجام دینے والے کمانڈر یاوجینی آئیوانوف کے ساتھ بھی معاشقہ چل رہا تھا۔

اسٹیفن وارڈ ایک مالشیہ تھا اور اُسی نے کرسٹین کو پروفیومو سے متعارف کرایا تھا۔اسٹیفن سوسائٹی کے اونچے لوگوں سے تعلقات استوار کرنے اور پر تعیش پارٹیاں دینے کے لئے بہت مشہور تھا۔نیو یارک ٹائمز کے مطابق سٹیفن پر عورتوں کی دلالی کا الزام لگایا جاتا تھا اور اس وقت کے اخبارات کے مطابق اس نے جسم فروشی کا اڈہ بنا رکھا تھا۔اخبار سن کا کہنا ہے کہ وارڈ پر جسم فروشی سے ناجائز آمدنی کمانے کا مقدمہ بنا اورفیصلہ سنائے جانے سے پہلے ہی اُس نے خود کشی کر لی۔

کرسٹین جیسی ہی ایک عورت نے جنرل رانی کے روپ میں جنرل یحییٰ کی حکومت کا بیڑا غرق کر دیا تھا۔دوسری بار یہ مشرف کا دور تھا جب اس طرح کی اخلاق باختہ عورتیں حکومتی ایوانوں پر اثر انداز ہوتی تھیں۔ان میں سے کچھ خواتین پارلیمنٹ کی رکنیت اور اعلیٰ عہدوں تک پہنچیں اور آج بھی وہاں براجمان ہیں۔

اسٹیفن جیسے کردار آج بھی ہماری اشرافیہ کی صفوں میں پائے جاتے ہیں۔ وہ جسم فروشی کا دھندہ کرتے ہیں اور دلال کہلاتے ہیں جنہیں پنجابی زبان میں دلاّ کہا جاتا ہے۔پاکستان میں اس قماش کے لوگوں کا مستقبل بڑا روشن ہے۔ یہ لوگ ہر سیاسی پارٹی، افسر شاہی، انتظامیہ، کاروباری دنیا اور میڈیا میں موجود ہیں اور ان کے وزیر اور وزیر اعظم تک بننے کا امکان رہتا ہے۔اس طرح کے لوگ ملک کی انتہائی اعلیٰ سطح پر فیصلہ سازی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں بد قسمتی سے اس طرح کے کردار نہ توقانون کی گرفت میں آتے ہیں، نہ ان کو بے نقاب کیا جاتا ہے، نہ ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور نہ ہی ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔اس کے برعکس ان لوگوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے، ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے، ان کا تحفظ کیا جاتا ہے اور ان کو بار بار استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ طاقتور ہونے کی وجہ سے یہ لوگ ہر جگہ ڈوریاں ہلاتے نظر آتے ہیں۔

اگر پاکستان نے ترقی کرنی ہے تو ایک دن ہمارے معاشرے کو بھی اسی طرح ڈٹ جانا ہوگا جس طرح 1961 ء میں برطانوی معاشرہ اس قماش کےلوگوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا تھا۔دلال اسٹیفن معاشرے کو منہ نہیں دکھا سکتا تھا اس لئے اُس نے خود کشی کر لی۔برطانوی میڈیا نے ان غیر اخلاقی معاشقوں کو بے نقاب کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا حتیٰ کہ اس نے شہزادہ فلپ تک کو معاف نہیں کیا۔اس کے برعکس ہمارے میڈیا میں اتنی سکت نہیں کہ وہ اس طرح کے دلالوں اور جسم فروشوں کو بےنقاب کر سکے۔بد قماش لوگ میڈیا کا جزو بن چکے ہیں اور میڈیا ان کے چنگل میں بری طرح جکڑا ہوا ہے۔

ہمارے بھولے عوام کسی کی کمزوریوں کی پردہ پوشی کے زعم میں اس طرح کے معاشوں کو بے نقاب کرنے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔اگر ہم ان معاملات کو بے نقاب کرکے قانون کےشکنجے میں نہیں لاتے تو ہم اس لعنت سے کس طرح چھٹکارا حاصل کر سکیں گے جس نے ہماری معاشرتی بنیادوں کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر دیا ہے۔

کسی برائی پر قابو پانے اور اس کا خاتمہ کرنے کے لئے ضروری ہے سب سے پہلے برائی کی نشاندہی کی جائے۔اوّل تو ہمارے بھولے عوام ذہنی انتشار کا شکار ہیں اسی لئے وہ کوئی دوسرا قدم اٹھانے سے گریزاں ہیں۔

برطانوی مثال سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہمیں سمجھنا چاہئے کہ کرسٹین کے روسی فوجی اتاشی سے بھی قریبی تعلقات تھے۔ یہ کسی کی ذاتی زندگی پر حملہ آور ہونے کا معاملہ نہیں بلکہ اس کا مقصد ان جنسی تعلقات کے پردے میں ہماری قومی سلامتی کو درپیش خطرات کو بے نقاب کرنا ہے۔اس سکینڈل کو صرف میڈیا ہی نے نہیں اچھالا بلکہ اس کے خلاف عدالتی چارہ جوئی بھی کی گئی۔

1961ء کا پروفیومو سیکس سکینڈل تاریخ رقم کر گیا جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے افراد کےلئے اشد ضروری ہے حسن و عشق کے دھوکے میں نہ آئیں۔ آج کے برطانوی معاشرے میں کرسٹین کیلر، جان پروفیومو اور سٹیفن وارڈ جیسے کرداروں کی کوئی گنجائش نہیں۔جب کہ ہمارے ہاں یہ عالم ہے کہ ہر کونے کھدرے میں کرسٹین، اسٹیفن اور پروفیومو پائے جاتے ہیں۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑا کر دیکھئے وہ آپ کو ہر جگہ نظر آ ئیں گے۔ہم لوگ ان کو پہچانتے ہیں، ان کا احترام کرتے ہیں، انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں اوران سے مدد کے طالب ہوتے ہیں۔ایک نہ ایک دن تو ہمیں احساس ہوگا کہ اگر ہم ایک با وقار قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں ان دلوّں اور جسم فروشوں کو اپنی صفوں سے نکالنا ہوگا۔


Profumo Sex Scandal in 1961.

By Ahmad Jawad

The Profumo Affair was a sex scandal that rocked the British government in the early 1960s. At its center was a cabaret dancer and model named Christine Keeler, who engaged in an affair with then-Secretary of State for War John Profumo, who was a rising star in the government of Prime Minister Harold Macmillan, per The New York Times. Christine, who passed away at the age of 75 in December 2017, was simultaneously engaged in a relationship with an attaché in the Soviet Embassy in London, Commander Yevgeny Ivanov.

Stephen Ward, who was an osteopath and the one who introduced Christine to Profumo. He was notorious for his high society connections and lavish parties. Stephen was accused of pimping out women, and newspapers at the time claimed he was running a “vice ring,” according to The New York Times. Ward was placed on trial for immoral earnings, but committed suicide before a verdict was handed down, per The Sun.

Women like Christine once jeopardised Yahya Khan Govt in the form of General Rani. Second time it was Musharraf, when such women greatly influenced the corridors of government. Some of them reached in parliament and high positions and they prevail even today.

Characters like Stephen are found in every society in the elite part of society. They act like “Vice Rings” which is also known as “Pimp”. In punjabi, it can be translated as “ Dullah”. Such characters have very bright future in Pakistan, they can become Ministers & Prime Ministers and they are every where in every political party, bureaucracy, establishment, corporate sector & media. Such characters can greatly influence top decision making in a country.

Unfortunately, in our society, such characters are never caught, never exposed, never discouraged, never rejected. Instead, they are welcomed, protected and used frequently. They are powerful and pull the strings every where.

If Pakistan has to rise, one day our society has to react like British society reacted in 1961. Stephen (Pimp) committed suicide because he could not face the society. British Media played the most vital role in exposing such illegitimate affairs. They even did not forgive Prince Phillip. On the contrary, our media will never dare to expose such Vice Rings & Pimps since Media is also under their strong influence and they might be part of it.

Our foolish public discourage exposing such affairs under the belief “ don’t expose somebody’s weakness”. If we don’t expose & prosecute such affairs, how will we tackle such menace which is hurting our basic foundations like a termite.

To tackle & overcome an evil, first step is to identify the evil. Our confused public is very confused on the first step and they don’t know the second step.

To learn from British example, we must note it was not attacking somebody’s personal life but exposing a possible compromise in national security, since Christine was also involved with Russian Military Attache. The Scandal did not just stay as a media hype, it was followed up by legal prosecution.

1961 Profumo Sex Scandal made history and left the lesson that how people at high positions must be responsible enough not to become target of honey traps. Today, British society has zero tolerance for characters like Christine Keeler, John Profumo & Stephen Ward while our society have Christine, Stephen & Profumo in every row and every column. Just look around, they are everywhere we know them, we respect them, we accommodate them, we take their help. One day we have to learn that Pimps & Vice rings and their players must be kicked out of our rows, if we want to become an honourable nation.